بحیرۂ روم کی شہری ریاستیں ۔۔۔۔ تحریر : عظیم احمد
بحیرۂ روم کا جغرافیہ کچھ اس قسم کا ہے کہ اس کے ساحل پر واقع ہر چھوٹے موٹے گاؤں کے لئے ضروری تھا کہ وہ خشکی یا سمندر کی طرف سے ہونے والے ہر حملے کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے قابل ہو، کیونکہ بیرونی امداد کا یہاں تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ یہاں زندہ رہنے کے لئے ہر فرد کو اپنی آبادی پر جسمانی اور معاشی حوالے سے کامل انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ان چھوٹی چھوٹی بستیوں سے وہ شہر وجود میں آئے جو آگے چل کر یونانی شہری ریاستوں کے نام سے تاریخ عالم میں معروف ہوئے۔ ان شہری ریاستوں کو اپنے باشندوں کی وفاداری اور افرادی قوت پر کامل اختیار حاصل تھا اور باشندے بھی خود پر ریاست کے اس حق کو تسلیم کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ارسطو (جو خود بھی ایسی ہی ایک چھوٹی سی ریاست کا رہنے والا تھا) نے انسان کو ایک '' سیاسی جانور‘‘ قرار دیا۔
ساحلی پہاڑی سلسلوں کی بدولت ان ریاستوں میں سے کسی کے لئے بھی ممکن نہ تھا کہ ایک وقت میں چند مربع میل سے زیادہ رقبے پر قابض رہ سکے۔ اس جغرافیائی کیفیت کی بدولت ایک عرصے تک یہاں کوئی سلطنت ایسی نہ ابھر سکی جو ان تمام شہروں کو ایک لڑی میں پرو کر مربوط کر دیتی اور ایک وفاق کا حصہ بنا دیتی۔ اگر ان میں سے چند شہری ریاستیں شاہی رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی سکیں تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ ریاستیں سمندری راستوں کے ذریعے کامیابی سے تجارت کر رہی تھیں۔ مثال کے طور پر ایتھنز کی ریاست زیتون کا تیل، چاندی اور ظروف برآمد کرتی تھی۔ اس تجارت کی بدولت ایتھنز نے ایک زبردست بحری فوج بنانے اور اپنے شہر کے گرد بلند فصیلیں کھڑی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 480 قبل مسیح میں ایتھنز کی افواج نے ایران کو شکست دے کر یونانی سمندر میں ایک چھوٹی سی سلطنت قائم کر لی۔ ایتھنز کی سب سے بڑی حریف ریاست سپارٹا تھی جس کے ساتھ ایک طویل عرصے تک ان کی لڑائیاں چلتی رہیں۔ بالآخر 404 قبل مسیح میں سپارٹا نے ایتھنز کو شکست سے دوچار کر کے اس مخاصمت کا خاتمہ کر دیا۔
سپارٹا سے شکست کھانے کے بعد بھی ایتھنز نے اپنی خودمختاری برقرار رکھی اور ارتقائی منازل طے کرتی رہی۔ 338 قبل مسیح میں سکندر اعظم کا باپ، مقدونیہ کا شاہ فلپ اس پر حملہ آور ہوا اور ایتھنز کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ قصہ مختصر، مقدونیہ کا حصہ بننے تک کے اس تمام عرصے کے دوران ایتھنز کو اتنا وقت اور فرصت مل گئی کہ اپنی حدود کے اندر مختلف طرز ہائے حکومت کو آزما سکے۔ نہ صرف تاریخ عالم کی پہلی کامیاب جمہوریت بلکہ سیاسی سوچ کے ابتدائی تجربات بھی اسی دور کی مرہونِ منت ہیں۔
ایتھنز والوں کو نوکر شاہیاں کھڑی کرنے کا کوئی شوق نہ تھا اور وہ یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ تمام بادشاہتیں بالآخر شکست و ریخت کی شکار ہو کر نوکر شاہی کا ہی روپ دھار جاتی ہیں۔ نوکر شاہی کے اصول و ضوابط، یونان کے شہریت کے تصورات سے میل نہیں کھاتے تھے۔ ریاست کا دفاع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہر بالغ مرد ضرورت پڑنے پر جنگ کے لئے تیار رہے۔ اس کے بدلے میں اسے ایک خاص عزت و احترام اور ذاتی خودمختاری سے نوازا جاتا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ آزاد ہوتا تھا۔ اس آزادی کی حفاظت کے لئے حکومت کا قیام ضروری تھا کیونکہ یونانیوں کو انتشار قطعی پسند نہ تھا۔
بادشاہت اور نوکر شاہی کو پہلے ہی رد کیا جا چکا تھا لہٰذا مسئلے کا حل صرف یہی نکل سکتا تھا کہ ریاست کے تمام شہریوں کو حکومتی اختیارات میں شریک کر لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یونانی آزادی کی حفاظت چند افراد کی حکومت نے زیادہ بہتر طور پر کی یا اکثریت کی حکومت نے؟ بہ حیثیت مجموعی اس دور کے عظیم ناموں نے حکومت اشرافیہ (Aristocracy) کے حق میں اپنا ووٹ دیا ہے۔ افلاطون کا خیال تھا کہ سیاست کا مقصد، ''اچھائی‘‘ کا حصول ہے اور بہت کم لوگ اس عمل کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ذریعے اچھائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے نزدیک یہ چند منتخب لوگ حکومت کرنے کے اہل تھے۔ اس کے شاگرد ارسطو کے نزدیک عقل و دانش کی نمو و پرداخت سب سے بڑی انسانی خوبی تھی اور اس کا یقین تھا کہ منتخب افراد کے ایک طبقے کو ہمیشہ کے لئے اس کام پر مامور کر دیا جانا چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے عقل و شعور کی آبیاری کرتے رہیں۔ ریاست کے بقیہ افراد کی ذمہ داری ہوگی کہ ان کے اخراجات کا بوجھ اٹھائیں۔ اس کے بدلے میں یہ چند منتخب افراد اپنے قیمتی وقت کے چند لمحے قربان کر کے کاروبارِ حکومت چلانے کی ذمہ داری اٹھا لیں گے اور مادی خواہشات سے پاک اور علم و دانش سے پُر ہونے کے سبب وہ اس کام کو سب سے زیادہ کامیابی سے انجام دے سکیں گے۔ ارسطو کا یہ نظریۂ حکومت اولیگارشی حکومت (Oligarchy) کہلاتا ہے۔ بہرحال، یہ نظریہ اس وقت کے یونان میں کامیاب نہ ہو سکا اور جمہوریت پسند غالب آ گئے۔ اگر تمام شہری ریاستوں میں نہ سہی تو ایتھنز اور اس کی اتحادی ریاستوں میں ضرور جمہوریت کا بول بالا ہو گیا۔ فوجی ذمہ داریاں نبھانے کے عوض میں ایتھنز کے تمام باشندوں کو کاروبارِ حکومت میں حصے سونپ دیئے گئے۔
اس صورتِ حال کے غیر معمولی نتائج نکلے۔ مفاد پرست لیڈروں کے بہکاوے میں آ کر لوگ گمراہ ہونے لگے۔ ان میں اتنی عدم برداشت در آئی کہ انہوں نے افلاطون کے استاد سقراط کو بھی مقدمہ چلا کر سزائے موت سنا دی ، وقت کے سب سے روشن دماغ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک دوسرے کے ذاتی امتیازات کے حوالے سے وہ رشک و حسد کے جذبات کے شکار ہونے لگے۔ فارس، سپارٹا اور مقدونیہ کے خلاف تین بڑی جنگیں جو انہیں لڑنا پڑیں، ان میں سے دو وہ ہار گئے۔ اس کے علاوہ تمام شہری ریاستوں میں ایتھنز کے عظیم تر اور سب سے برتر ہونے کے عقیدے کے زیر اثر انہوں نے غلاموں کی بیگار کو اپنی معاشرت کا جزوِ اعظم بنا ڈالا، شاہانہ بیرون ملک مہم جوئیوں کے دلدادہ ہو گئے اور ایسے کسی بھی فرد کو ایتھنز کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو پیدائشی طور پر وہاں کا باشندہ نہ ہو، خواہ اس نے ایتھنز کی فلاح و بہبود کے لئے کتنی ہی خدمات انجام کیوں نہ دی ہوں۔ ارسطو جیسا دانشمند اور قابل قدر شخص بھی اس قانون کی زد سے محفوظ نہ رہ سکا۔
ایتھنز کی جمہوریت کی بنیادیں کمزور اور نازک تھیں۔ مندرجہ بالا تمام حقائق کا ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے، اور وہ یہ کہ ایتھنز والے اپنے ماضی کی روایات سے نجات حاصل نہ کر سکے لیکن اس کے باوجود ایتھنز نے جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ غیر معمولی اور قابل ستائش تھیں۔ اس کے بعد شاید کسی اور شہری ریاست نے ایسی کامیاب جمہوری روایات کا اجراء نہیں کیا۔ روزِ آخر تک یہ شہر نہایت کامیابی اور اطمینان بخش انداز میں عوامی رائے اور عوامی قانون کے تحت چلتا رہا۔کہا جا سکتا ہے کہ اگر شاہِ مقدونیہ جیسی زبردست طاقت اس پر حملہ آور نہ ہوتی تو یہ اپنی جمہوری روایات کو اور بھی آگے لے جاتا اور تب شاید جدید جمہوریت اور قدیم جمہوریت کے مابین دو ہزار سالوں کی خلیج حائل نہ ہوتی۔
بحیرۂ روم کا جغرافیہ کچھ اس قسم کا ہے کہ اس کے ساحل پر واقع ہر چھوٹے موٹے گاؤں کے لئے ضروری تھا کہ وہ خشکی یا سمندر کی طرف سے ہونے والے ہر حملے کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے قابل ہو، کیونکہ بیرونی امداد کا یہاں تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ یہاں زندہ رہنے کے لئے ہر فرد کو اپنی آبادی پر جسمانی اور معاشی حوالے سے کامل انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ان چھوٹی چھوٹی بستیوں سے وہ شہر وجود میں آئے جو آگے چل کر یونانی شہری ریاستوں کے نام سے تاریخ عالم میں معروف ہوئے۔ ان شہری ریاستوں کو اپنے باشندوں کی وفاداری اور افرادی قوت پر کامل اختیار حاصل تھا اور باشندے بھی خود پر ریاست کے اس حق کو تسلیم کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ارسطو (جو خود بھی ایسی ہی ایک چھوٹی سی ریاست کا رہنے والا تھا) نے انسان کو ایک '' سیاسی جانور‘‘ قرار دیا۔
ساحلی پہاڑی سلسلوں کی بدولت ان ریاستوں میں سے کسی کے لئے بھی ممکن نہ تھا کہ ایک وقت میں چند مربع میل سے زیادہ رقبے پر قابض رہ سکے۔ اس جغرافیائی کیفیت کی بدولت ایک عرصے تک یہاں کوئی سلطنت ایسی نہ ابھر سکی جو ان تمام شہروں کو ایک لڑی میں پرو کر مربوط کر دیتی اور ایک وفاق کا حصہ بنا دیتی۔ اگر ان میں سے چند شہری ریاستیں شاہی رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی سکیں تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ ریاستیں سمندری راستوں کے ذریعے کامیابی سے تجارت کر رہی تھیں۔ مثال کے طور پر ایتھنز کی ریاست زیتون کا تیل، چاندی اور ظروف برآمد کرتی تھی۔ اس تجارت کی بدولت ایتھنز نے ایک زبردست بحری فوج بنانے اور اپنے شہر کے گرد بلند فصیلیں کھڑی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 480 قبل مسیح میں ایتھنز کی افواج نے ایران کو شکست دے کر یونانی سمندر میں ایک چھوٹی سی سلطنت قائم کر لی۔ ایتھنز کی سب سے بڑی حریف ریاست سپارٹا تھی جس کے ساتھ ایک طویل عرصے تک ان کی لڑائیاں چلتی رہیں۔ بالآخر 404 قبل مسیح میں سپارٹا نے ایتھنز کو شکست سے دوچار کر کے اس مخاصمت کا خاتمہ کر دیا۔
سپارٹا سے شکست کھانے کے بعد بھی ایتھنز نے اپنی خودمختاری برقرار رکھی اور ارتقائی منازل طے کرتی رہی۔ 338 قبل مسیح میں سکندر اعظم کا باپ، مقدونیہ کا شاہ فلپ اس پر حملہ آور ہوا اور ایتھنز کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ قصہ مختصر، مقدونیہ کا حصہ بننے تک کے اس تمام عرصے کے دوران ایتھنز کو اتنا وقت اور فرصت مل گئی کہ اپنی حدود کے اندر مختلف طرز ہائے حکومت کو آزما سکے۔ نہ صرف تاریخ عالم کی پہلی کامیاب جمہوریت بلکہ سیاسی سوچ کے ابتدائی تجربات بھی اسی دور کی مرہونِ منت ہیں۔
ایتھنز والوں کو نوکر شاہیاں کھڑی کرنے کا کوئی شوق نہ تھا اور وہ یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ تمام بادشاہتیں بالآخر شکست و ریخت کی شکار ہو کر نوکر شاہی کا ہی روپ دھار جاتی ہیں۔ نوکر شاہی کے اصول و ضوابط، یونان کے شہریت کے تصورات سے میل نہیں کھاتے تھے۔ ریاست کا دفاع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہر بالغ مرد ضرورت پڑنے پر جنگ کے لئے تیار رہے۔ اس کے بدلے میں اسے ایک خاص عزت و احترام اور ذاتی خودمختاری سے نوازا جاتا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ آزاد ہوتا تھا۔ اس آزادی کی حفاظت کے لئے حکومت کا قیام ضروری تھا کیونکہ یونانیوں کو انتشار قطعی پسند نہ تھا۔
بادشاہت اور نوکر شاہی کو پہلے ہی رد کیا جا چکا تھا لہٰذا مسئلے کا حل صرف یہی نکل سکتا تھا کہ ریاست کے تمام شہریوں کو حکومتی اختیارات میں شریک کر لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یونانی آزادی کی حفاظت چند افراد کی حکومت نے زیادہ بہتر طور پر کی یا اکثریت کی حکومت نے؟ بہ حیثیت مجموعی اس دور کے عظیم ناموں نے حکومت اشرافیہ (Aristocracy) کے حق میں اپنا ووٹ دیا ہے۔ افلاطون کا خیال تھا کہ سیاست کا مقصد، ''اچھائی‘‘ کا حصول ہے اور بہت کم لوگ اس عمل کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ذریعے اچھائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے نزدیک یہ چند منتخب لوگ حکومت کرنے کے اہل تھے۔ اس کے شاگرد ارسطو کے نزدیک عقل و دانش کی نمو و پرداخت سب سے بڑی انسانی خوبی تھی اور اس کا یقین تھا کہ منتخب افراد کے ایک طبقے کو ہمیشہ کے لئے اس کام پر مامور کر دیا جانا چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے عقل و شعور کی آبیاری کرتے رہیں۔ ریاست کے بقیہ افراد کی ذمہ داری ہوگی کہ ان کے اخراجات کا بوجھ اٹھائیں۔ اس کے بدلے میں یہ چند منتخب افراد اپنے قیمتی وقت کے چند لمحے قربان کر کے کاروبارِ حکومت چلانے کی ذمہ داری اٹھا لیں گے اور مادی خواہشات سے پاک اور علم و دانش سے پُر ہونے کے سبب وہ اس کام کو سب سے زیادہ کامیابی سے انجام دے سکیں گے۔ ارسطو کا یہ نظریۂ حکومت اولیگارشی حکومت (Oligarchy) کہلاتا ہے۔ بہرحال، یہ نظریہ اس وقت کے یونان میں کامیاب نہ ہو سکا اور جمہوریت پسند غالب آ گئے۔ اگر تمام شہری ریاستوں میں نہ سہی تو ایتھنز اور اس کی اتحادی ریاستوں میں ضرور جمہوریت کا بول بالا ہو گیا۔ فوجی ذمہ داریاں نبھانے کے عوض میں ایتھنز کے تمام باشندوں کو کاروبارِ حکومت میں حصے سونپ دیئے گئے۔
اس صورتِ حال کے غیر معمولی نتائج نکلے۔ مفاد پرست لیڈروں کے بہکاوے میں آ کر لوگ گمراہ ہونے لگے۔ ان میں اتنی عدم برداشت در آئی کہ انہوں نے افلاطون کے استاد سقراط کو بھی مقدمہ چلا کر سزائے موت سنا دی ، وقت کے سب سے روشن دماغ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک دوسرے کے ذاتی امتیازات کے حوالے سے وہ رشک و حسد کے جذبات کے شکار ہونے لگے۔ فارس، سپارٹا اور مقدونیہ کے خلاف تین بڑی جنگیں جو انہیں لڑنا پڑیں، ان میں سے دو وہ ہار گئے۔ اس کے علاوہ تمام شہری ریاستوں میں ایتھنز کے عظیم تر اور سب سے برتر ہونے کے عقیدے کے زیر اثر انہوں نے غلاموں کی بیگار کو اپنی معاشرت کا جزوِ اعظم بنا ڈالا، شاہانہ بیرون ملک مہم جوئیوں کے دلدادہ ہو گئے اور ایسے کسی بھی فرد کو ایتھنز کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو پیدائشی طور پر وہاں کا باشندہ نہ ہو، خواہ اس نے ایتھنز کی فلاح و بہبود کے لئے کتنی ہی خدمات انجام کیوں نہ دی ہوں۔ ارسطو جیسا دانشمند اور قابل قدر شخص بھی اس قانون کی زد سے محفوظ نہ رہ سکا۔
ایتھنز کی جمہوریت کی بنیادیں کمزور اور نازک تھیں۔ مندرجہ بالا تمام حقائق کا ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے، اور وہ یہ کہ ایتھنز والے اپنے ماضی کی روایات سے نجات حاصل نہ کر سکے لیکن اس کے باوجود ایتھنز نے جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ غیر معمولی اور قابل ستائش تھیں۔ اس کے بعد شاید کسی اور شہری ریاست نے ایسی کامیاب جمہوری روایات کا اجراء نہیں کیا۔ روزِ آخر تک یہ شہر نہایت کامیابی اور اطمینان بخش انداز میں عوامی رائے اور عوامی قانون کے تحت چلتا رہا۔کہا جا سکتا ہے کہ اگر شاہِ مقدونیہ جیسی زبردست طاقت اس پر حملہ آور نہ ہوتی تو یہ اپنی جمہوری روایات کو اور بھی آگے لے جاتا اور تب شاید جدید جمہوریت اور قدیم جمہوریت کے مابین دو ہزار سالوں کی خلیج حائل نہ ہوتی۔
Comment