Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

٭٭٭مکہ مکرمہ قدیم تاریخ کے جھروکے سے٭٭٭

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ٭٭٭مکہ مکرمہ قدیم تاریخ کے جھروکے سے٭٭٭


    ٭٭٭مکہ مکرمہ قدیم تاریخ کے جھروکے سے٭٭٭

    کعبة المشرفہ پوری دنیاکے مسلمانوں کا قبلہ ہے ـ اور یہ گھر مکہ مکرمہ جیسی عظیم الشان سرزمین میں واقع ہے ، اس لئے مسلمانوں کا سرزمین مقدس سے دلی و جذباتی لگاؤ ہے ، اسلام کی تاریخ یہیں سے شروع ہوتی ہے ، اور توحید کی دعوت کا آغاز یہیں سے ہوا ، دین کے لئے جس جذبہء قربانی و خود سپردگی کی ضرورت ہے اس کی جھلک اسی جگہ کے واقعات میں پوشیدہ ہے ، دینی حیثیت کے ساتھ ساتھ اقتصادی ، معاشرتی ، ادبی ، تاریخی اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لئے مکہ مکرمہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے ، اس سرزمین پر اللہ تعالٰی نے آخری پیغمبر کو مبعوث فرما کر اور ان پر قرآن کریم نازل فرما کر نیز ان کی دعوت کو عالمی اور دائمی دعوت کا امتیاز عطا فرما کر اس سرزمین اور اس کی تاریخ کو ایسی معنویت عطا فرمادی ہے جس کا بیان الفاظ کے ذریعہ ممکن نہیں ، بتوفیق اللہ اس مقدس سرزمین کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے ـ لفظ مکہ ایک تعارف : لفظ مَکہ یا مَک یا مَلکَک سے مشتتق ہے اور مَک دھکیلنے اور جذب کرنے کو کہا جاتا ہے اس لئے کہ لوگ اس مقدس شہر میں چلنے اور طواف کرنے میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں اور یہ ارضِ مقدس گناہ گار انسانوں کے گناہ کو جذب کر لیتا ہے ـ (تاریخ العروس 6/462، شفاء الغرام 1/54 وغیرہ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شہر کرہ ارض کے وسط میں واقع ہے اور دنیا بھر کے دریاؤں اور چشموں کے پانی کا منبع بھی ہے ، اس طرح تمام روئے زمین مکہ مکرمہ کے پانی سے سیراب اور فیض یاب ہورہی ہے (لسان العرب 6/360)

    ٭٭٭ ٭٭٭مکہ مکرمہ کی وجہ تسمیہ٭٭٭

    قرآن مجید میں اس سرزمینِ پاک کو مکہ ، بکہ ، ام القریٰ ، وادی غیر ذی ذرع جیسے ذی شان ناموں سے یاد گیا گیا ہے ، مکہ اور بکہ حقیقت میں ایک ہی لفظ ہے لیکن بکہ کی باء میم بدل کر مکہ بن گیا ہے ، جس طرح لفظ '' لازم '' اصل میں لازب تھا مگر باء میم کے ساتھ تبدیل ہوگئی اور لازم استعمال ہونے لگا ـ (تفسیر کبیر 3/301، تفسیرقرطبی4/138، تفسیرالبغوی1/385) امام لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مکہ کو ''مکہ'' اس لئے کہاجاتا ہے کہ اس میں ہر ظالم و جابر جب وہ ملحدانہ فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو اسکی گردنیں جھک جاتی ہیں (تاریخ مکہ و مکرمہ و بیت الحرام لدکتور وصی اللہ عباس ص:40) ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مکہ کو ''مکہ'' اس لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ راستہ میں چلتے ہوئے بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھکیلتے اور چیرپھاڑ کر نکلتے ہیں '' كان الناس يبك بعضهم بعضا في الطريق''بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھکیلتے اور چیرپھاڑ کر نکلتے ہیں'' (تاج العروس 6/436)

    ٭٭٭ولادت مکہ مکرمہ٭٭٭

    پانی کی سطح پر ابھرنے والا وہ مقدس مقام جسے زمین کی پیدائش سے تقریبا دو ہزار سال قبل اللہ تعالٰی نے وجود بخشا وہ مکہ مکرمہ ہی کی زمین تھی ، پھر اس کے نیچے سے اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت سے زمین بچھا دی ـ (تاریخ کعبہ :ص 34) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے مکہ مکرمہ بنایا گیا جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں پھر زمین اس کے نیچے سے پھیلا دی گئی ـ (مصنف عبدالرزاق 5/92،تفسیر طبری 1/547) عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کو اللہ تعالٰی نے زمین کے پیدائش سے ایک ہزار سال قبل پیدا فرمایا تھا اور اللہ تعالٰی کا عرش پانی پر تھا ، پھر عرش کے نیچے زمین کو بچھا دیا گیا ـ (تفسیر طبری 4/13) مجاہد یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے کعبہ کو بنایا پھر اس کے نیچے زمین کو بچھا دیا گیا (تفسیر طبری 4/13) تفسیر کبیر میں ایک روایت آئی ہے کہ مکہ مکرمہ روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے اس لئے اسے ام القریٰ بھی کہا جاتا ہے اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے ـ (معجم البلدان 7/256،تفسیر کبیر 3/9) یہ تمام اقوال اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین دنیا کی تمام زمین سے پیدائش کے اعتبار سے قدیم ہے ـ




    ٭مکہ اور بکہ کے درمیان فرق٭

    علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ''بکہ'' صرف ''بیت اللہ شریف'' ہے اور اسکے ماسوا پورا شہر ''مکہ'' ہے اور بکہ ہی وہ مقام ہے جہاں طواف کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ طواف صرف حرم کے اندر ہی جائز ہے باہر نہیں کیونکہ باہر کا حصہ مکہ میں شمار ہوتا ہے یہی قول امام مالک ، امام ابراہیم نخعی ، امام عطیہ اور امام مقاتل کا ہے
    (معجم البلدان 8/134،ابن کثیر 1/383،تفسیر طبری 4/6)

    امام ابی جعفر فرماتے ہیں کہ ایک عورت طواف کرتے ہوئے ایک نمازی کے سامنے سے گزر گئی اس آدمی نے اس عورت کو دھکا دیا تو وہ عورت رونے لگی اس لئے بکہ طواف کرنے کی جگہ کو کہا جاتا ہے (تفسیر طبری 4/8)
    قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں لوگ مخلوط مرد و عورت ایک دوسرے کے آمنے سامنے نماز پڑھتے ہیں جب کہ دوسری جگہ ایسا کرنا درست نہیں ، اس لئے اس کو ''بکہ ''کہا جاتا ہے (تفسیر طبری 4/8)

    ان تمام اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ بکہ طواف کرنے کی جگہ کو کہا جاتا ہے اور مکہ پورے حدود حرم کو کہا جاتا ہے -

    ٭مکہ مکرمہ کے حدود اربعہ٭

    محمد بن حوقل التوفی 367ھ نے 331ھ میں لکھا تھا کہ مکہ مکرمہ کی حد شمالا و جنوبا طول معلا سے مسفلہ تک 3/میل اور اجیاد کے نیچے سے قعیقان کی پشت تک عرض 2/میل ہے
    (صورت الارض ص 28)

    امام المؤرخین علامہ تقی الدین فاسی رحمہ اللہ المتوفٰی 833 ھ میں حدود اربعہ اس طرح بیان فرمایا تھا :'' باب معلاء سے باب ماجن تک 4472 ذراع اور باب معلاءسے شبیکہ تک 4492 ذراع
    (شفاء الغرام ج 2/69، تقی الدین فاسی المتوفی 832 ھ)

    مولانا عبدالسلام ندوی رحمہ اللہ نے 1342 ھ میں حدود کی تفصیلات اس طرح بیان فرمائی تھی :''مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کا شمالی سلسلہ مغربی جانب میں جبل فلج ، جبل قعیقعان ، جبل ہندی ، جبل لعلع ، اور جبل کداء پر مشتمل ہے ـ یہ تمام پہاڑی سلسلہ شہر کے بالائی حصہ میں واقعی ہے ،جنوبی حصہ کی مغربی جانب جبل ابی حدیدہ اور جبل کداء جو جنوب کی طرف مڑ جاتا ہے ، واقع ہیں ، پھر جبل ابی قبیس جو ان دونوں کے مشرق جانب ہے ، سے گھیرا ہے اس کے بعد جبل خندمہ ہے ـ ان تمام پہاڑوں کی چوٹیوں اور ہموار جگہوں میں بنے ہوئے چھوٹے بڑے مکانات کی مجموعی تعداد تقریبا سات ہزار ہے جن میں کم و بیس دو لاکھ نفوس ایام حج میں قیام پذیر ہوتے ہیں ـ
    (تاریخ حرمین شریفین لندی ، ص : 27)

    علامہ محمد لبیب البتونی نے 1329ھ میں حسب ذیل حدود بیان فرمائی ہیں :'' شمالا و جنوبا 3 کلومیٹر لمبا اور شرقا و غربا جبل ابی قبیس سے جبل قعیقعان تک 1/1-2 کلومیٹر چوڑا ہے ـ
    (الرحلہ الحجازیة ص : 160، لمحمد لبیب بتونی مصری رحمہ اللہ)




    ٭٭٭دخول و خروج مکہ مکرمہ کے راستے ٭٭٭

    اس شہر میں داخل اور خارج ہونے کے لئے قدیم زمانے میں صرف تین راستے تھے ، یہ راستے بقول علامہ ازرقی رحمہ اللہ درج ذیل ہیں ـ
    1- طریق کداء : یہ سڑک عراق اور عرفات کی طرف جاتا ہے
    2-طریق یمن : یہ راستہ یمن کی سمت جاتا ہے
    3- طریق جدہ : یہ سڑک مدینہ منورہ ،جدہ ، شام ، مصر وغیرہ کی طرف جاتی ہے ـ
    (اخبار مکہ ص : 30)

    علامہ تقی الدین فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس دور میں دروازے وغیرہ تو قطعا ختم ہو چکے ہیں بلکہ ان سے کہیں دور دور تک آبادی پھیل گئی ہے اور اب تین کے بجائے چار راستے بن گئے ہیں :

    1- مشرق میں دو سڑکیں ، ایک باب الشرائع اور دوسرا طریقہ منیٰ
    2- شمال میں تین سڑکیں ، باب اللصوص ، باب ریع ، باب اذاخر
    3- مغرب میں چار سڑکیں ـ باب جدہ ، ریع ابی لہب ، ریع الکحل اور درب الہنداویہ
    4- جنوب میں تین سڑکیں ہیں ـ طریق المفجر ، ریع کدی ، طریق مسفلہ
    (تاریخ القدیم 2/69)

    ٭٭٭مکہ مکرمہ کی ابتدائی آبادی٭٭٭

    اس لق و دق صحرا کو گل گلزار اور چمن زارد بنانے والا پہلاشخص اسماعیل علیہ السلام اور ہاجرہ علیہا السلام ہیں ، جنہیں ابراہیم علیہ السلام نے حکم الہی سے اس بے آب و گیاہ ریگستان اور سنگلاخ و ناہموار ٹیلہ میں تھوڑا سا پانی اور مشکیزہ بھر کر پانی دیکر اللہ تعالٰی کے حوالے کر آئے تھے اس سے قبل یہ ایک ہولناک اور وحشت انگیز بیابان ٹیلہ تھا اسی چیز کی طرف اللہ تعالٰی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :'' إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَ+كًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ '' کہ اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ شریف میں ہے جو تمام دنیاکے لئے بابرکت و ہدایت والا ہے ہے (سورة آل عمران ، 96جوناگھڑی)

    اس آیت سے پتہ چلا کہ سب سے پہلے اسماعیل علیہ السلام نے اس شہر مقدس کو آباد کیا تھا البتہ اطراف و اکناف میں قبیلہ جرہم آباد تھا ـ جو بعد میں سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے ازدواجی سلسلے میں منسلک گیا(ماخوز تاریخ مکہ مکرمہ لمحمد عبدالمعبود ص :71)

    ٭٭٭مکہ مکرمہ میں سیلابوں کی ایک جھلک٭٭٭

    اس شہر خوباں میں نہ تو کوئی دریا ہے اور نہ ہی ندی نالہ ، مگر اس کے باوجود نہ صرف شہر بلکہ اللہ کے مقدس گھر کو بھی متعدد بار سیلاب سے ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہا ـ چنانچہ زمانہء جاہلیت میں ایک تباہ کن سیلاب آیا تھا جس سے کعبہ شریف منہدم ہوگیا تھا ، اسی وجہ سے قبیلہء جرہم کو نئے سرے سے کعبہ شریف تعمیر کرنا پڑا ، ظہورِ اسلام کے بعد پہلا تباہ کن سیلاب 17 ھجری میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں آیا تھا ، جو '' ام نہشل'' کے نام سے مشہورا ہوا (تاریخ القویم 2/201)
    اس کے بعد آخر میں 22 /جنوری 1969 ء میں مطابق 1389 کو بدھ کے دن صبح کے وقت موسلا دھار بارش ہوئی اور حرم شریف جل تھل ہوگیا اور مطاف میں قرآن مجید کی الماریاں کشتی کی طرح پانی پر تیر رہی تھیں ، بنا بریں شہر مکہ اور کعبة اللہ بیسیوں مرتبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنا (اعلام الاعلام ص : 76 ، شفا الغرام بعنوان سیلا مکہ تقی الدین فاسی المتوفی 832 ھجری )

    آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اس مقدس شہر کو تاقیامت عظمت ، جلالت و شرف پر باقی رکھے اور ہرقسم کی ظاہری وباطنی گندگیوں سے محفوظ رکھے ـ آمین
    "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

  • #2
    Re: ٭٭٭مکہ مکرمہ قدیم تاریخ کے جھروکے سے٭٭٭

    جزاک اللہ بھائی

    پیغام پر دوبارہ آمد پر خوش آمدید
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: ٭٭٭مکہ مکرمہ قدیم تاریخ کے جھروکے سے٭٭٭

      جزاک اللہ۔
      شہرِ مقدس کے حوالے سے بہت عمدہ معلومات شیئر کی ہیں۔

      Comment


      • #4
        maloomati post share karnay ka shukria
        Hacked by M4mad_turk
        my instalgram id: m4mad_turk

        Comment

        Working...
        X