Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تاریخ کے جھرکوں سے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تاریخ کے جھرکوں سے

    تاریخ کے جھرکوں سے



    سلطان غایث الدین بلبن (1222تا 1287) کو مولویوں کی ریشہ دوانیوں کو پوا پورا علم تھا وہ ان کی تنگ نظریوں سے بھی واقف تھا اس لیے اس نے امور سلطنت میں مولویوں کو مداخلت کی اجازت نہ دی وہ علما کے مشوروں اور شرع کے فیصلوں پر ریاست کے مفاد کو ہمیشہ ترجیح دیتا تھا اور اعلانہ کہتا تھا کہ امور ملکی سیاسی مصلحتوں کے پابند ہیں نہ کے شرع و فقہا کے

    بلبن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس کے دونوں بیٹے بغرا خان اور محمد خان لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تو شاہی ملازموں نے بادشاہ سے عرض کی کہ شہزادوں کو قفہ اور صرف و نحو میں سے کس چیز کی تعلیم دی جائے۔۔بلبن نے کہا کے مولویوں کو انعام دے کر رخصت کر دیا جائے اور شہزادوں کو ’’ اداب السطالین ’’ اور ماثر السلاطین ‘‘ جیسی کتابیں جو بغداد سے التمش کے بیٹوں کے لیے منگوائی گئی تھی تاریخ و سیاست کے فاضلوں سے پڑھائی جائیں۔۔گدا طبع مولوی جو کچھ پڑھاتے ہیں وہ میرے بیٹوں کے لیے امور مملکت میں مفید نہ ہوگا

    مذہب کو سیاست سے دور رکھنے میں علاو الدین خلجی (1296 سے 1312) بلبن پر بھی سبقت لے گیا وہ مذہبی عالموں اور قاضیوں کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ ان کو رموز حکومت کی سمجھ بالکل نہیں آتی سلطنت کے قواعد و ضوابط بنانا بادشاہ کا کام ہے۔۔شرع اور اہل شرع کا س سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔۔اس عہد کے مولویوں کی ذہنیت کا اندازہ علاو الدین خلجی اور قاضی مغیث الدین بیانوی کی گفتگو سے خوبی لگایا جا سکتا ہے کہتے ہیں ایک بار بادشاہ نے قاضی صاحب سے پوچھا کہ ہندووں کے ساتھ ہمارا سکول کیا ہونا چاہیے۔۔قاضی صاحب نے جواب دیا اگر کوئ سرکاری ملازم کسی ہندو سے چاندی طلب کرے تو اس کا فرض ہے کہ پوری عاجزی اور تعظیم کے ساتھ سونا پیش کرے اور اگر کوئی سرکاری ملازم اس کے منہ میں تھوکے تو وہ بغیر کراہت کے اپنا منہ کھول دے۔بادشاہ کو چاہیے کے ہندوئوں کو مال و اسباب پر قبصہ کر لے اور ان کو غلام بنا لے۔

    نفرت اور انسان دشمنی کے ان بتوں کا موازنہ صوفیا کے حسن و اخلاق سے کرو تو پتہ چلتا ہے کہ صوفیا نے اسلام کو قبول عام بنانے اور مولویوں نے اسلام کو مطعون کرنے میں کیسی کسی گراں بار خدمات سرانجام دی ہے شاید مولویوں ہی کی حرکتوں سے بیزار ہو کر علاو الدین خلجی نے ایک نیا مذہب شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔



    علاو الدین خلجی تو خیر قریب قریب ان پڑھ تھا لیکن محمد تغلق (1325 تا 1351) پر کوئی شٌص جہالت کا الزام نہیں لگا سکتا مولویوں کو تو اس سے شکایت ہی یہی تھی کہ وہ معقولات کو منقولات پر ترجیح دیتا ہے اور اپنا بیشتر وقت فلسفہ کی کتابوں میں صرف کرتا ہے۔ اس نے مولویوں اور صوفیوں سے نجات پانے کی یہ ترکیب نکالی کہ ان کو جبرا کشمیر دکن بنگال بھجوا دا کہ ان دور افتادہ مقامات پر اسلام کی تبلیغ کئجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    :rose
    :(

  • #2
    tareekh
    Hacked by M4mad_turk
    my instalgram id: m4mad_turk

    Comment

    Working...
    X