Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

قدیم لکھنؤ میں سپاہ گری .... تحریر : نیر مسعود

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قدیم لکھنؤ میں سپاہ گری .... تحریر : نیر مسعود

    قدیم لکھنؤ میں سپاہ گری .... تحریر : نیر مسعود

    Click image for larger version

Name:	lakhnao.jpg
Views:	20
Size:	45.5 KB
ID:	4288553
    لکھنؤ کے بارے میں حال ہی میں ایک پرانی کتاب ملی ہے جس سے اس تاریخی شہر کی ترقی کا راز بھی کھلتا ہے اور کئی اہم تہذیبی حوالے بھی ہم پر آشکارا ہوتے ہیں۔
    آصف الدولہ نے فیض آباد کے بجائے لکھنؤ کو اپنی سلطنت کا صدر مقام بنایا جس سے فوراً لکھنؤ مرکزِ نظر بن گیا۔ آصف الدولہ کی دل آویز شخصیت، بے اندازہ فیاضی، علم دوستی اور اہلِ ہنر کی قدردانی نے بہت جلد لکھنؤ کو مرجعِ خلائق بنا دیا۔ جس وقت دہلی کی سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا، لکھنؤ کے چراغ کی لَو اونچی ہو رہی تھی۔ تاریخ اور ادبیات کے واقف خوب جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں دہلی کے کتنے با کمال لوگ لکھنؤ میں آ بسے۔ گردشِ زمانہ نے دہلی کے چراغ کا بچا کھچا روغن لکھنؤ کے کنول میں انڈیل دیا اور دہلی ہی نہیں، برصغیر بھر سے قدردانی اور معاش کے طلب گاروں نے کھنچ کھنچ کر لکھنؤ آنا شروع کر دیا۔ یوں لکھنؤ کی تہذیب کی تشکیل ہوئی۔ اس تشکیل کی رفتار نہایت تیز تھی، یہ کہا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کی تہذیب تقریباً یک لخت معرضِ وجود میں آ گئی۔ اس کے پسِ پشت صدیوں اور قرنوں کے تجربات و حوادث کارفرما نہیں تھے۔ چند سال کے اندر اس تہذیب نے اپنی ارتقائی منزلیں طے کر لیں اور پھر بہت تیزی کے ساتھ ثقافت اور معاشرت کے لحاظ سے ایک واضح اور منفرد شکل اختیار کر کے اپنے عروج کی انتہائی منزل تک پہنچ گئی۔ یہ ارتقائی منزلیں آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کے دورِ نیابت میں طے ہوئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیرالدین حیدر کے دورِ بادشاہت تک لکھنؤ کی تہذیب اپنی آخری بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔
    نصیرالدین حیدر ہی کے عہد میں ایک انگریز سیّاح ولیم نائیٹن بھی لکھنؤ آیا تھا۔ اس نے لکھنؤ میں اپنے قیام کے حالات اپنی نایاب کتاب ''ایک مشرقی بادشاہ کی نجی زندگی‘‘ میں درج کیے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
    ''...صرف ایک عظیم الشان شہر جسے میں نے دیکھا ہے... میرے نزدیک لکھنؤ کے نشیبی حصّے سے، تنگ و تار گلیوں، لدے پھندے اونٹوں اور گنجان بازاروں سے مشابہ ہے اور وہ شہر قاہرہ دار السلطنتِ مصر ہے۔‘‘
    ''ڈریسڈن، ماسکو، قاہرہ، جس سے چاہے آپ لکھنؤ کو مشابہ قرار دیجیے مگر میرے نزدیک لکھنؤ کی ایسی عجائب روزگار چیزیں ان مقامات میں سے کہیں نظر نہ آئیں گی۔ اولاً لکھنؤ کے ایسے ہتھیار بند آدمی ان شہروں میں کہیں نہ دکھائی دیں گے۔ ماسکو کے باشندے صرف چھُری باندھتے ہیں اور قاہرہ کے لوگوں کے ہاتھ میں کچھ ہتھیار کبھی کبھی دکھائی دیتے ہیں۔ برخلاف اس کے لکھنؤ کے باشندے بالعموم اوپچی بنے نظر آئیں گے۔ ان کے پاس ڈھال، تلوار اور بندوق یا پستول ضرور ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو کاروبار روزمرّہ کرتے ہیں، تلوار ضرور باندھتے ہیں اور کوچہ گرد حضرات جب مٹرگشت کو نکلتے ہیں تو چاہے کیسی ہی ذلیل پوشاک کیوں نہ پہنے ہوں مگر تپنچے (ایک چھوٹا آتشی ہتھیار) کی جوڑی اور ڈھال، دونوں لگائے ہوں گے۔ بھینسے کی کھال سے منڈھی ہوئی ڈھال، جس میں پیتل کے پھول لگے ہوتے ہیں، اکثر بائیں جانب کاندھے پر لٹکی ہوتی ہے۔ بڑی بڑی مونچھوں والے مہیب صورت راجپوت اور سیاہ داڑھی والے مسلمان ڈھال تلوار سے لیس نظر آتے ہیں اور لکھنؤ والوں کے پندارِ خودی و خود پسندی اور جوشِ نبرد آزمائی کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔
    یہ امر کہ کیوں اہلِ لکھنؤ بالعموم سپاہیانہ وضع رکھتے ہیں، تعجب خیز نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ کمپنی کے فوجی صیغے میں اودھ ہی کے پرورش یافتہ بکثرت ہوتے ہیں اور احاطۂ بنگالہ کی فوج تمام تر یہیں کے باشندوں سے مملو ہے۔
    باشندگانِ لکھنؤ میں اسلحہ کا مذاق بچپن ہی سے پیدا کرا دیا جاتا ہے۔ تیر اور برچھے یہاں کے لڑکوں کے معمولی کھلونے ہیں، جس طرح پر انگریز دائیاں بالعموم بچوں کے ہاتھوں میں جھُنجنے دے دیتی ہیں، اسی طرح یہاں کھیلنے کے لئے چھوٹے چھوٹے تپنچے اور کاٹھ کی تلواریں پکڑا دی جاتی ہیں۔
    سپہ گری کا مذاق عام ہونے کی وجہ سے اس فن میں باریکیاں پیدا کر کے اسے وسعت دی گئی۔ شمشیر زنی اور نیزہ بازی کے سیکڑوں داؤں پیچ ایجاد کیے گئے۔ علاوہ ازیں، کشتی، بانک، بنوٹ وغیرہ کو اتنی ترقی دی گئی کہ ان کو ایک نئے فن کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یوں تو لکھنؤ کا قریب قریب ہر ایک باشندہ سپہ گری میں کچھ نہ کچھ دخل ضرور رکھتا تھا، لیکن جس نے اس میں خصوصی مہارت بہم پہنچا کر اس کو گویا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا وہ بانکوں کا طبقہ تھا۔ بانکے اپنے کردار اور اطوار کی وجہ سے اپنی مثال آپ تھے۔ مظلوم کی حمایت میں ظالم سے بھِڑ جانا، حریفوں کو ان کی تعداد کا لحاظ کیے بغیر بے دھڑک سرِ بازار للکار دینا، جو اُن سے مدد طلب کرے اس کے لیے جان تک دے دینے سے دریغ نہ کرنا، ایک وضع مقرر کر کے مرتے دم تک اور ہر حالت میں اسی پر قائم رہنا، غیرت اور خود داری پر لمحہ بھر کے لیے بھی آنچ نہ آنے دینا، یہ سب ایسی خصوصیات تھیں جنہوں نے ان کی شخصیت کو ایک دل آویز افسانوی حیثیت دے دی۔ واقعات گواہ ہیں کہ اُن کے اٹل ارادوں کو بادشاہ تک جنبش نہیں دے سکتے تھے۔ وہ مقصد کی خاطر جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ ان کی بہادری شجاعت سے گزر کر بے خوفی کی حدوں میں داخل ہو گئی تھی۔ ان کی وجہ سے شہر میں آئے دن کشت و خون اور معرکہ آرائیاں ہوا کرتی تھیں، امن و امان کے دنوں میں بھی لکھنؤ تلواروں کی جھنکار، قرابین کے دھماکوں اور جنگی نعروں سے گونجا کرتا تھا۔
    ولیم نائیٹن لکھتا ہے:
    اس شہر کے گلی کوچے میری نظروں میں بالکل انوکھے معلوم ہوئے۔ گویا کہ خواب کی حالت میں میرا گزر دفعتاً کسی ایسے عجیب ملک میں ہوا ہے جہاں کے خاص و عام پہلوان ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے حلیے سے جنگجوئی ٹپکتی ہے اور جن کا تذکرہ میں نے لڑکپن میں قصّوں اور کہانیوں کی کتابوں میں پڑھا تھا۔

  • #2
    Eshaal TM Maria Noor

    Comment


    • #3
      Welcome back intelligent086
      Thanks for informative sharing.

      Comment


      • #4
        Zaberdast
        :(

        Comment

        Working...
        X