کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات
ہے ان کے لب پہ آج کٹھن مرحلے کی بات
جس کارواں کے سامنے تارے نِگوں رہے
صحرا میں اُڑ گئی ہے اُسی قافلے کی بات
آخر سرِ غرور نے سجدہ کیا اسے
یوں مختصر ہوئی ہے بڑے فاصلے کی بات
راہِ طلب میں ہم سے کوئی بھول ہو گئی
کیوں کر رہے ہیں آپ ہمارے صِلے کی بات
ہم نے تو عرض کر ہی دیا حرفِ مدعا
اب آپ ہی کریں گے کسی فیصلے کی بات
اُن کی تلاش اصل میں اپنی تلاش ہے
کس سلسلے سے جا ملی کس سلسلے کی بات
واصف علی واصف