جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے
مگر دنیا کی رونق کم نہیں ہے
میں روتا ہوں کہ زخم ِ آرزو کو
دعا دیتا ہوا موسم نہیں ہے
نئی آنکھیں نئے ہیں خواب ہیں میرے
مجھے یہ بھی سزا کچھ کم نہیں ہے
ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں
مزاج ِ دہر تو برہم نہیں ہے
ہوا کہ دوش پہ جلتا دیا ہوں
جو بجھ جاوں تو کوئی غم نہیں ہے
تو پھر میں کیا مری عرض ِ ہنر کیا
صداقت ہی اگر پرچم نہیں ہے
مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے
:rose