Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے

    غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے
    مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہنچے

    میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی!
    تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

    وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
    وہ صدائے اہلِ دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے

    مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
    مِلے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

    نئی صبح پر نظر ہے، مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
    یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

    یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
    مگر ایسی بے رُخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

    جو نقابِ رُخ اُٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
    اُٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے

    انہیں اپنے دل کی خبریں، مرے دل سے مل رہی ہیں
    میں جو اُن سے رُوٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

    وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جانِ ہستی
    جو زبان پر نہ آئے، جو کلام تک نہ پہنچے

    شکیل بدایونی
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔


  • #2
    Re: غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے

    شروع کے دو اشعار پڑھ کر ہی اندازہ ہوچلا تھا کہ یہ کسی منجھے ہوئے شاعر کا کلام ہے

    اس عمدہ فراہمی کا شکریہ۔
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے

      Bohat khubsurat intikhab aanchal ji

      Comment

      Working...
      X