خودداریوں کےخون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے
٭ ساحر لدھیانوی ٭
Comment