بہت سردی ہے ۔۔۔ ممّا
ابھی کچُھ دیر
میرا ہاتھ مت چھوڑیں
زمستاں کی ہوا سے کپکپاتا
میرے سینے سے لگا
تو کہہ رہا تھا
زیادہ دن نہیں گذرے
کہ میری گود کی گرمی
تجھے آرام دیتی تھی
گلے میں میرے بانہیں ڈال کر تو اس طرح سوتا
کہ اکثر ساری ساری رات میری
ایک کروٹ میں گزر جاتی
مرے دامن کو پکڑے
گھر میں تتلی کی طرح سے گھوُمتا پھرتا
مگر پھر جلد ہی تجھ کو
پرندوں اور پھولُوں
اور پھر ہمجولویوں کے پاس سے ایسا بلاوا آ گیا
جس کو پا کر
مری اُنگلی چھُڑا کر
تو ہجومِ رنگ میں خوشبو کی صورت مِل گیا
پھر اس کے بعد خوابوں سے بھرا بستہ لیے
اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تُو
جہاں پر رنگ اور پھر حرف اور پھر ہندسے
اور سو طرح کے کھیل تیرے منتظر تھے
دِل لبُھاتے تھے
تِرے استاد مجھ سے معتبر تھے
دوست مجھ سے خوُب تر تھے
مجھے معلوم ہہے
میں تُجھ سے پیچھے رہ گءی ہوں
سفر اب جتنا باقی ہے
وہ بس پسپاءی کا ہی ہے
تری دنیا میں اب ہر پل
نءے لوگوں کی آمد ہے
میں بے حد خامشی سے
اُن کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
تِرا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں
زیادہ دِن نہ گذریں گے
مرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
تجُھے کافی نہیں ہو گی
کوءی خوش لمس دستِ یاسمیں آ کر
گلابی رنگ کی حدّت
تیرے ہاتھوں میں سمو دے گا
مرا دِل تجھ کو کھو دے گا
میں باقی عمر
تیرا راستہ تکتی رہوں گی
میں ماں ہوں
اور میری قسمت جداءی ہے
محترمہ پروین شاکر کی کتاب انکار سے ایک اقتباس
میں ایک اردو بلاگ بھی لکھ رہا ہوں، ہو سکے تو دیکھ لینا
کھلی کتاب
Comment