مٹّی کی گواہی خوں سے بڑھ کر
آئی ہے عجب گھڑی وفا پر
کس خاک کی کوکھ سے جنم لیں
آئے ہیں جو اپنے بیج کھو کر
کانٹا بھی یہاں کا برگِ تر ہے
باہر کی کلی ببول ، تھوہر
قلموں سے لگے ہُوئے شجر ہم
پل بھر میں ہوں کِس طرح ثمر ور
کچھ پیڑ زمین چاہتے ہیں
بیلیں تو نہیں اُگیں ہوا پر
اس نسل کا ذہن کٹ رہا ہے
اگلوں نے کٹائے تھے فقط سر
پتّھر بھی بہت حسیں ہیں لیکن
مٹّی سے ہی بن سکیں گے کچھ گھر
ہر عشق گواہ ڈھونڈتا ہے
جیسے کہ نہیں یقیں خود پر
بس اُن کے لیے نہیں جزیرہ
پَیر آئے جو کھولتے سمندر
parveen shakir