جگا سکے نہ ترے لب ، لکیر ایسی تھی
ہمارے بخت کی ریکھا بھی میر ایسی تھی
یہ ہاتھ چُومے گئے ، پھر بھی بے گلاب رہے
جو رُت بھی آئی ، خزاں کے سفیر ایسی تھی
وہ میرے پاؤں کو چھُونے جھُکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اُسے دیتی ، امیر ایسی تھی
شہادتیں مرے حق میں تمام جاتی تھیں
مگر خموش تھے منصف ، نظیر ایسی تھی
کُتر کے جال بھی صیّاد کی رضا کے بغیر
تمام عُمر نہ اُڑتی ، اسیر ایسی تھی
پھر اُس کے بعد نہ دیکھے وصال کے موسم
جُدائیوں کی گھڑی چشم گیر ایسی تھی
بس اِک نگاہ مجھے دیکھتا ، چلا جاتا
اُس آدمی کی محبّت فقیر ایسی تھی
ردا کے ساتھ لٹیرے کو زادِ رہ بھی دیا
تری فراخ دلی میرے دِیر ایسی تھی
کبھی نہ چاہنے والوں کا خوں بہا مانگا
نگارِ شہرِ سخن بے ضمیر ایسی تھی
parveen shakir