من تھکنے لگا ہے تن سمیٹے
بارش کی ہَوا میں بن سمیٹے
ایسا نہ ہو ، چاند بھید پا لے
پیراہنِ گُل شِکن سمیٹے
سوتی رہی آنکھ دن چڑھے تک
دُلہن کی طرح تھکن سمیٹے
گُزرا ہے چمن سے کون ایسا
بیٹھی ہے ہوا بدن سمیٹے
شاخوں نے کلی کو بد دُعا دی
بارش ترا بھولپن سمیٹے
آنکھوں کے طویل رتجگوں پر
چاند آیا بھی تو گہن سمیٹے
احوال مرا وہ پوچھتا تھا
لہجے میں بڑی چبھن سمیٹے
اندر سے شکست وہ بھی نکلا
لیکن وہی بانکپن سمیٹے
شام آئے تو ہم بھی گھر کو لوٹیں
چڑیوں کی طرح تھکن سمیٹے
خود جنگ سے دست کش تھے ہم لوگ
جذبات میں ایک رن سمیٹے
آنکھوں کے چراغ ہم بجھا دیں
سُورج بھی مگر کرن سمیٹے
بس پیار سے مِل رہے ہیں کچھ لوگ
چمکیلے بدن میں پھن سمیٹے
پھر ہونے لگی ہوں ریزہ ریزہ
آئے ….. مجھے میرا فن سمیٹے
غیروں کے لیے بکھر گئی ہوں
اب مجھ کو مِرا وطن سمیٹے
parveen shakir