ہوا سے جنگ میں ہوں ، بے اماں ہوں
شکستہ کشتیوں پر بادباں ہوں
میں سُورج کی طرح ہوں دھوپ اوڑھے
اور اپنے آپ پر خود سائباں ہوں
مجھے بارش کی چاہت نے ڈبویا
میں پختہ شہر کا کچّا مکاں ہوں
خُود اپنی چال اُلٹی چلنا چاہوں
میں اپنے واسطے خود آسماں ہوں
دُعائیں دے رہی ہوں دشمنوں کو
اور اِک ہمدرد پر نا مہرباں ہوں
پرندوں کو دُعا سِکھلا رہی ہوں
میں بستی چھوڑ ، جنگل کی اذاں ہوں
ابھی تصویر میری کیا بنے گی
ابھی تو کینوس پر اِک نشاں ہوں
parveen shakir