دشمن ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
مجھ میں اُتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح
جکڑے ہُوئے ہے تن کو مرے ، اس کی آرزو
پھیلا ہُوا ہے جال سا شریان کی طرح
دیوار و در نے جس کے لیے ہجر کاٹے تھے
آیا تھا چند روز کو ، مہمان کی طرح
دکھ کی رُتوں میں پیڑ نے تنہا سفر کیا
پتّوں کو پہلے بھیج کے سامان کی طرح
گہرے خنک اندھیرے میں اُجلے تکلّفات
گھر کی فضا بھی ہو گئی شیزان کی طرح
ق
ڈوبا ہُوا ہے حسنِ سخن میں سکوتِ شب
تارِ ربابِ رُوح میں کلیان کی طرح
آہنگ کے جمال میں انجیل کی دُعا
نرمی میں اپنی ، سورۂ رحمان کی طرح
parveen shakir