اپنی ہی صدا سُنوں کہاں تک
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک
ہر بار ہوا نہ ہو گی در پر
ہر بار مگر اُٹھوں کہاں تک
دَم گھٹتا ہے ، گھر میں حبس وہ ہے
خوشبو کے لیے رُکوں کہاں تک
پھر آگے ہوائیں کھول دیں گی
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک
ساحل پہ سمندروں سے بچ کر
میں نام ترا لکھوں کہاں تک
تنہائی کا ایک ایک لمحہ
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک
گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج
میں تجھ سے جُدا رہوں کہاں تک
سُکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو
دُکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک
منسوب ہو ہر کرن کسی سے
اپنے ہی لیے جَلوں کہاں تک
آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں
پھُول اُس کے لیے چُنوں کہاں تک
parveen shakir