خُوشبو بھی اس کی طرزِ پذیرائی پر گئی
دھیرے سے میرے ہاتھ کو چھُو کر گزر گئی
آندھی کی زد میں آئے ہُوئے پھُولوں کی طرح
میں ٹکڑے ٹکڑے ہوکے فضا میں بکھر گئی
شاخوں نے پھُول پہنے تھے کچھ دیر قبل ہی
کیا ہو گیا، قبائے شجر کیوں اُتر گئی
اُن اُنگلیوں کا لمس تھا اور میری زُلف تھی
گیسو بکھر رہے تھے تو قسمت سنور گئی
اُترے نہ میرے گھر میں وہ مہتاب رنگ لوگ
میری دُعائے نیم شبی بے اثر گئی
parveen shakir