کیسے چھوڑیں اسے تنہائی پر
حرف آتا ہے مسیحائی پر
اس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو
پیار آنے لگا رسوائی پر
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر
رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی
قامتِ عشق کی رعنائی پر
سطح کے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر
ذکر آئے گا جہاں بھنوروں کا
بات ہو گی مرے ہرجائی پر
خود کو خوشبو کے حوالے کر دیں
پھول کی طرزِ پذیرائی پر
parveen shakir