سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی
دلوں کے بند دریچے کھُلے ، ہَوا آئی
سرک گئے تھے جو آنچل، وہ پھر سنور سے گئے
کھُلے ہُوئے تھے جو سر ، اُن پہ پھر رِدا آئی
اُتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں
یہ کس کو چھُو کے مرے شہر میں صبا آئی
اُسے پکارا تو ہونٹوں پہ کوئی نام نہ تھا
محبتوں کے سفر میں عجب فضا آئی
کہیں رہے وہ ، مگر خیریت کے ساتھ رہے
اُٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دُعا آئی
parveen shakir