تری نظر میں کہاں بار یاب ہونا تھا
تمام عمر یہی اِضطراب ہونا تھا
صبا چلی ہے جس انداز سے گلستاں میں
کسی کو لا لہ، کسی کو گلاب ہونا تھا
بڑی اُمید تھی کارِ جہا ں میں دِ ل سے مگر
اُسے تو تیری طلب میں خراب ہونا تھا
مسافر کی رات مسافر کی میزبانی کو
کوئی ستارہ کوئی مہتاب ہونا تھا
بس اتنی عمر تھی اُس سر زمینِ دِل پہ مری
پھر اُس کے بعد اِسے وہم خواب ہونا تھا۔
"پروین شاکر"