یہ دُکھ جو برف کا طوفان بن کے آیا ہے
پہاڑوالوں پہ کیسے عذاب لایا ہے
یہ زندہ رہنے کی خاطر ، اجازتوں کا دُکھ
بطور قرض کے حاصل ، محبتوں کا دُکھ
یہ غم کہ رات کی دہلیز اپنا گھر ہوگی
تمام عالمِ امکاں میں جب سحر ہوگی
یہ دُکھ کہ چھوڑگئے انتہا پہ آکر ساتھ
سیاہ ہاتھوں پہ تقدیر لکھنے والے ہاتھ
مسافرانِ شبِ غم ، اسیرِ دار ہُوئے
جو رہنما تھے ، بِکے او ر شہر یار ہُوئے
پروین شاکر