شوقِ رقص سے جب تک اُنگلیاں نہیں کُھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے ، بیڑیاں نہیں کُھلتیں
پیڑ کو دُعادے کر کٹ گئی بہاروں سے
پُھول اِتنے بڑھ آئے ، کھڑکیاں نہیں کھلتیں
پُھول بن کی سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخی صبا سے تو بالیاں نہیں کُھلتیں
حُسن کو سمجھنے کو عُمر چاہیے ، جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کُھلتیں
کوئی موجہ شیریں چُوم کر جگائے گی
سُورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کُھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دُکھ ہجر کا ، کہ خودپر بھی
اِتنی چھوٹی عُمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں ، کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں ، تتلیاں نہیں کُھلتیں
آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ اُبھرتی ہے
چھپ پہ کون آتا ہے ، سیڑھیاں نہیں کُھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں ، بستیاں نہیں کُھلتیں
پروین شاکر