یہ حسین شام اپنی
ابھی جس میں گھل رہی ہے
ترے پیرہن کی خوشبو
ابھی جس میں کِھل رہے ہیں
میرے خواب کے شگوفے
ذرا دیر کا ہے منظر
ذرا دیر میں اُفق پہ
کِھلے گا کوئی ستارہ
تری سمت دیکھ کر وہ
کرے گا کوئی اشارہ
ترے دل کو آئے گا پھر
کسی یاد کا بُلاوا
کوئی قصہءِ جدائی
کوئی کارِ نامُکمل
کوئی خوابِ نا شگفتہ
کوئی بات کہنے والی
کسی اور آدمی سے
ہمیں چاہیے تھا مِلنا
کسی عہدِ مہرباں میں
کسی خواب کے یقیں میں
کسی اور آسماں میں
کسی اور سر زمیں میں
پروین شاکر