ہریالی دریا کے دونوں جانب ہوتی ہے
وہ پہاڑوں اورمیدانوں میں بہتے ہوئے
پتھروں اور پُھولوں سے یکساں سلوک کرتا ہے
مچھلیاں پکڑتے ہوئے
کبھی کسی مچھیرے سے اُس کا ڈومیسائل نہیں مانگتا
بلکہ شکریے کا انتظار کئے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے
ہوا اور بادل کی طرح مہربان اور بے نیاز
مگر جب اُس کے کناروں پر رہنے والے
اُس کے پانیوں میں نفرتیں ملانے لگیں
اور بچّوں اور پھولوں کو
والیوں اور مالیوں کا شجرہ دیکھ کر
پانی کا پرمٹ جاری کرنے لگیں
اور یہ سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہے
تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے
کہ ایسے موقعوں پر
دریا اپنا جغرافیہ تبدیل کرلیتے ہیں
میرا خیال ہے
ہمارے لئے
فی الحال ایک موہن جو داڑو کافی ہے
پروین شاکر