لمحہ لمحہ وقت کی جھیل میں ڈُوب گیا
اب پانی میں اُتریں بھی تو پائیں کیا
طوفان جب آیا تو جھیل میں کُود پڑا
وہ لڑکا جو کشتی کھیلنے نکلا تھا
کتنی دیر تک اپنا آپ بچائے گی
ننھی سی اِک لہر کو موجوں نے گھیرا
اپنے خوابوں کی نازک پتواروں سے
تیر رہا ہے سطحِ آپ پہ اِک پتہ
ہلکی ہلکی لہریں نیلم پانی میں
دھیرے دھیرے ڈولے یاقوتی نیّا
شبنم کے رُخساروں پر سُورج کے ہونٹ
ٹھہر گیا ہے وصل کا اِک روشن لمحہ
چاند اُترآیا ہے گہرے پانی میں
ذہن کے آئینے میں جیسے عکس ترا
کیسے ان لمحوں میں تیرے پاس آؤں
ساگر گہرا، رات اندھیری ، میں تنہا
پروین شاکر