“ بہت برفاف موسم ہے
ہوائیں برف رُت کی شال اوڑھے
بند کمرے میں پناہیں ڈھونڈتیں ہیں
یہ کمرہ
جس میں ہیٹر چل رہا ہے اور
بدن سارے کا سارا برف کی سل بن گیا ہے
بدن کی حدتیں اب اک
غبار آلود خواہش کی طرح گم ہو رہیں ہیں*
مگر اس منجمد شب میں
جہاں پر ذہن سُن ہو
اور پوریں بےحس و حرکت
وہاں پر سانس لینے اور لہو کو گرم رکھنے کی یہی صورت نظر آئی
کہ تم سے فون پر بات کروں
باتوں ہی باتوں* میں*
تمہارے عارض و رخسار و لب اور برف پگھلاتی ہوئی
آنکھوں*کو چھولوں اور تمہیں* کہہ دوں
ذرا تم فون پر ہونٹوں* کو رکھ دو ۔۔۔ ۔ میں* بھی رکھتا ہوں*
تم اپنی گرم سانسوں سے مری سانسوں*کو پگھلاؤ
تصور میں مجھے چھو لو ۔۔۔ ۔ میرے دل میں اُتر آؤ
میں تنہائی کے جس موسم کی یخ بستہ رتوں میں مبتلا ہوں
اس گھڑی ان کو
تمہارے عارض و رخسار کی حدت ہی پگھلائے تو پگھلائے
وگرنہ پھر خدا حافظ “
Comment