مسلسل روکتی ہوںاس کو شہر دل میں آنے سے
مگر وہ کوہ کن رکتا نہیں دیوار ڈھانے سے
بھلا کیا دکھ کے آنگن میں سلگتی لڑکیاں جانے
کہیں چھپتے ہیں آنسو آنچلوں میں منہ چھپانے سے
ابھی تو فصل تازہ ہے ہمارے حرف و معنی کی
ابھی ڈرتے نہیں ہم موسموں کے آنے جانے سے
ابھی تو عشق میں آنکھیں بجھی ہیں دل سلامت ہے
زمینیں بانجھ ہوتی ہیں کبھی فصلیں جلانے سے ؟
تجھے تنہا محبت کا یہ دریا پار کرنا ہے
ندامت ہوگی اس کے حوصلوں کو آزمانے سے
ہمیں کس ظرف کے کردار کے قصے سناتا ہے
تجھے اے شہر ہم بھی جانتے ہیں اک زمانے سے
تجھے بھی ضبط غم شوق نے پتھر بنا ڈالا
تجھے اے دل بہت روکا تھا رسم و راہ نبھانے سے
نوشی گیلانی