مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
صاحب تاجِ عزت پہ لاکھوں سلام
واقفِ راز فطرت پہ لاکھوں سلام
قاسمِ کنزِ نعمت پہ لاکھوں سلام
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس کو بے چین رکھتا تھا امت کا غم
نیک و بد پر رہا جس کا یکساں*کرم
وہ حبیب خدا ، وہ شفیع امم
شہر یارِ امم ، تاجدارِ حرم
نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
سرورِ دو جہاں ، شاہِ جن و بشر
جس کی چوکھٹ پہ جھکتے ہیں شاہوں کے سر
عبدِ خالق ، مگر خلق کا تاجور
صاحب رجعتِ شمس و شق القمر
نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
وہ خداوند اقلیمِ جود و سخا
ہادیِ انس و جاں ، شاہ ہر دوسرا
سر بر آوردہ حلقہ انبیا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اُس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام
عہد طفلی میں وہ دلبرانہ چلن
دلستاں خامشی معجزانہ سخن
حسن میں دل کشی ، چال میں بانکپن
اللہ اللہ وہ بچنے کی پھبن
اس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام
سرمگیں آنکھ ما زاغ کی راز داں
حلقہ زلف ، امت کا دارالاماں
ہاتھ فیاض ، عقدہ کشا انگلیاں
پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
نور افشاں ہوا جب وہ بطحی کا چاند
دیکھنے آئے سب ، روئے طیبہ کا چاند
آسماں پر پڑا ماند دنیا کا چاند
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
جس گھڑی یاد باب حرم آگیا
سوزِ فرقت سے آنکھوں*میں نم آگیا
موج میں جب وہ عیسی حشم آگیا
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
رنج تنہائی ، تنہا سے پوچھے کوئی
دردِ شبیر ، زہرا سے پوچھے کوئی
تہہ میں کیا ہے ، یہ دریا سے پوچھے کوئی
کس کو دیکھا یہ موسی سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام
جس کی تقدیس کا رنگ گہرا رہا
جس کے در پر فرشتوں کا پہرا رہا
مغفرت کی سند جس کا چہرا رہا
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
بندگی جس کے صدقے ٹھکانے لگے
جس کے دیکھے خدا یاد آنے لگے
جس سے روتے ہوئے مسکرانے لگے
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام
روئے روشن پہ پڑتی نظر کی قسم
آمنہ کے چمکتے قمر کی قسم
مجھ کو سرکار کے سنگِ در کی قسم
کھائی قرآں نے خاکِ گزر کی قسم
اس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام
جس کا حامی خداوندِ عالم رہا
فتح کا جس کے ہاتھوں میں پرچم رہا
جس کا رتبہ جہاں میں مسلم رہا
جس کے آگے سرِ سروراں خم رہا
اس سرِ تاجِ رفعت پہ لاکھوں سلام
جس کے آگے سلاطینِ عالم جھکیں
جس کے اک بول پر اہل دل مر مٹیں
جس کی تعمیلِ ارشاد قدسی کریں
وہ زباں* جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وقتِ دیدار ، چشم تماشا جھکی
دیکھ کر جلوہ گر ، موجِ دریا جھکی
جس کی آمد پہ دیوارِ کسریٰ جھکی
جس کے سجدے کو محراب کعبہ جھکی
ان بھووں کی لطافت پہ لاکھوں *سلام
خیر دنیا نہیں ، خیر عقبیٰ نہیں
اس کے دستِ تصرف میں کیا کیا نہیں
جس کی طاقت کا کوئی ٹھکانا نہیں
جس کو بارِ دو عالم کی پروا نہیں
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کون ہے وہ ، کرم جس پہ ان کا نہیں
سب کے ہیں ، ایک میرے ہی آقا نہیں
ایک میں ہی غلام ان کا تنہا نہیں
ایک میرا ہی رحمت پہ دعوی نہیں
شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام
خواجہ تاشِ نصیرِ ثنا خواں ، رضا
وہ بریلی کے احمد رضا خاں رضا
لا کے صف میں مجھے ان کے درباں ، رضا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
صاحب تاجِ عزت پہ لاکھوں سلام
واقفِ راز فطرت پہ لاکھوں سلام
قاسمِ کنزِ نعمت پہ لاکھوں سلام
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس کو بے چین رکھتا تھا امت کا غم
نیک و بد پر رہا جس کا یکساں*کرم
وہ حبیب خدا ، وہ شفیع امم
شہر یارِ امم ، تاجدارِ حرم
نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
سرورِ دو جہاں ، شاہِ جن و بشر
جس کی چوکھٹ پہ جھکتے ہیں شاہوں کے سر
عبدِ خالق ، مگر خلق کا تاجور
صاحب رجعتِ شمس و شق القمر
نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
وہ خداوند اقلیمِ جود و سخا
ہادیِ انس و جاں ، شاہ ہر دوسرا
سر بر آوردہ حلقہ انبیا
جس کے زیرِ لوا آدم و من سوا
اُس سزائے سیادت پہ لاکھوں سلام
عہد طفلی میں وہ دلبرانہ چلن
دلستاں خامشی معجزانہ سخن
حسن میں دل کشی ، چال میں بانکپن
اللہ اللہ وہ بچنے کی پھبن
اس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام
سرمگیں آنکھ ما زاغ کی راز داں
حلقہ زلف ، امت کا دارالاماں
ہاتھ فیاض ، عقدہ کشا انگلیاں
پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
نور افشاں ہوا جب وہ بطحی کا چاند
دیکھنے آئے سب ، روئے طیبہ کا چاند
آسماں پر پڑا ماند دنیا کا چاند
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
جس گھڑی یاد باب حرم آگیا
سوزِ فرقت سے آنکھوں*میں نم آگیا
موج میں جب وہ عیسی حشم آگیا
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
رنج تنہائی ، تنہا سے پوچھے کوئی
دردِ شبیر ، زہرا سے پوچھے کوئی
تہہ میں کیا ہے ، یہ دریا سے پوچھے کوئی
کس کو دیکھا یہ موسی سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام
جس کی تقدیس کا رنگ گہرا رہا
جس کے در پر فرشتوں کا پہرا رہا
مغفرت کی سند جس کا چہرا رہا
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
بندگی جس کے صدقے ٹھکانے لگے
جس کے دیکھے خدا یاد آنے لگے
جس سے روتے ہوئے مسکرانے لگے
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام
روئے روشن پہ پڑتی نظر کی قسم
آمنہ کے چمکتے قمر کی قسم
مجھ کو سرکار کے سنگِ در کی قسم
کھائی قرآں نے خاکِ گزر کی قسم
اس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام
جس کا حامی خداوندِ عالم رہا
فتح کا جس کے ہاتھوں میں پرچم رہا
جس کا رتبہ جہاں میں مسلم رہا
جس کے آگے سرِ سروراں خم رہا
اس سرِ تاجِ رفعت پہ لاکھوں سلام
جس کے آگے سلاطینِ عالم جھکیں
جس کے اک بول پر اہل دل مر مٹیں
جس کی تعمیلِ ارشاد قدسی کریں
وہ زباں* جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وقتِ دیدار ، چشم تماشا جھکی
دیکھ کر جلوہ گر ، موجِ دریا جھکی
جس کی آمد پہ دیوارِ کسریٰ جھکی
جس کے سجدے کو محراب کعبہ جھکی
ان بھووں کی لطافت پہ لاکھوں *سلام
خیر دنیا نہیں ، خیر عقبیٰ نہیں
اس کے دستِ تصرف میں کیا کیا نہیں
جس کی طاقت کا کوئی ٹھکانا نہیں
جس کو بارِ دو عالم کی پروا نہیں
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کون ہے وہ ، کرم جس پہ ان کا نہیں
سب کے ہیں ، ایک میرے ہی آقا نہیں
ایک میں ہی غلام ان کا تنہا نہیں
ایک میرا ہی رحمت پہ دعوی نہیں
شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام
خواجہ تاشِ نصیرِ ثنا خواں ، رضا
وہ بریلی کے احمد رضا خاں رضا
لا کے صف میں مجھے ان کے درباں ، رضا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام