درِ نبی پر پڑا رہوں گا پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا
کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میرا سلام ہوگا
خلافِ معشوق کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہوگا
خدا بھی ہو گا اُدھر ہی اے دِل جدھر وہ عالی مقام ہوگا
کیے ہی جاؤں گا عرضِ مطلب,ملے گا جب تک نہ دل کا مطلب
نہ شامِ مطلب کی صبح ہوگی نہ یہ فسانہ تمام ہو گا
جو دل سے ہے مائلِ پیمبر یہ اُس کی پہچان ہےمقرر
کہ ہر دم اُس بے نوا کے لب پر درود ہو گا سلام ہو گا
اِسی توقع پہ جی رہا ہوں یہی تمنا جِلا رہی ہے
نگاہِ لطف و کرم نہ ہوگی تو مجھ کو جینا حرام ہو گا