Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

احناف اور وسیلہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • احناف اور وسیلہ


    احناف اور وسیلہ


    احناف کی مذکورہ آٹھ کتابوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ یہ عبارت منقول ہے۔
    جس سے وسیلے کی حرمت وکراہت ثابت ہوتی ہے۔
    يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ، وَكَذَا بِحَقِّ أَنْبِيَائِك، وَأَوْلِيَائِك أَوْ بِحَقِّ رُسُلِك أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ أَوْ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى
    مفہوم عبارت: یہ مکروہ عمل ہے کہ کوئی شخص اپنی دعامیں یہ کہے کہ ’’(اے اللہ میری دعا قبول فرما)فلاں شخص کے واسطے سے،اور(اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کہے کہ) اپنے انبیا کے وسیلے سے اور اولیا کے واسطے یا اپنے رسولوں کے واسطے سے یا بیت اللہ کے واسطے سے،مشعر حرام کے واسطے سے،کیونکہ مخلوق کو خالق پر اس طرح کا کوئی حق نہیں۔
    ١۔تبین الحقائق شرح کنز الدقائق:کتاب الکراہیہ،فصل فی البیع،ج٦ص٣١
    ٢۔بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع:ج٥ص١٢٦
    ٣۔الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی:ج٤ص٣٨٠
    ٤۔متن بدایۃ المبتدی فی فقہ الامام ابی حنیفہ:ج١ص٢٤٨
    ٥۔العنایۃ شرح الھدایۃ:ج١٠ص٦٤،ج١٢ص٢٤٨
    ٦۔درر الحکام شرح غرر الاحکام:ج١ص٣٢١
    ٧۔رد المحتار على الدر المختار:ج٦ص٣٩٧
    ٨بحر الرائق شرح کنز الدقائق:ج٨ص٢٣٥

    حنفیوں کو چاہیے کہ کم از کم حنفی ہی بن جائیں۔


  • #2
    Re: احناف اور وسیلہ



    اللہ تعالیٰ نے براہ راست اللہ کو پکارنے کا حکم دیا ہے:

    ﴿ وَإِذا سَأَلَكَ عِبادى عَنّى فَإِنّى قَر*يبٌ ۖ أُجيبُ دَعوَةَ الدّاعِ إِذا دَعانِ ۖ فَليَستَجيبوا لى وَليُؤمِنوا بى لَعَلَّهُم يَر*شُدونَ ١٨٦ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
    ﴿ لَهُ دَعوَةُ الحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَجيبونَ لَهُم بِشَىءٍ إِلّا كَبـٰسِطِ كَفَّيهِ إِلَى الماءِ لِيَبلُغَ فاهُ وَما هُوَ بِبـٰلِغِهِ ۚ وَما دُعاءُ الكـٰفِر*ينَ إِلّا فى ضَلـٰلٍ ١٤ ﴾ ۔۔۔ سورة الرعد
    ﴿ وَقالَ رَ*بُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم ۚ إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِر*ونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِر*ينَ ٦٠ ﴾ ۔۔۔ سورة غافر


    مشرکین مکہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نیک لوگوں کا وسیلہ ڈالتے تھے:
    ﴿ أَلا لِلَّـهِ الدّينُ الخالِصُ ۚ وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ*بونا إِلَى اللَّـهِ زُلفىٰ إِنَّ اللَّـهَ يَحكُمُ بَينَهُم فى ما هُم فيهِ يَختَلِفونَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لا يَهدى مَن هُوَ كـٰذِبٌ كَفّارٌ* ٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر
    خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا (3)

    ﴿ فَلَولا نَصَرَ*هُمُ الَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّـهِ قُر*بانًا ءالِهَةً ۖ بَل ضَلّوا عَنهُم ۚ وَذٰلِكَ إِفكُهُم وَما كانوا يَفتَر*ونَ ٢٨﴾ ۔۔۔ سورة الأحقاف
    پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وه تو ان سے کھو گئے، (بلکہ دراصل) یہ ان کا محض جھوٹ اور (بالکل) بہتان تھا (28)


    وسیلہ ایک شرعی لفظ ہے- اور قرآن مین استعمال ہوا ہے- لہذا شرعی وسیلہ صرف وہی ہے ، جسے قرآن وحدیث نے وسیلہ کہا ہے - جیسے نیک اعمال، اللہ کے اسماء حسنی ، اللہ کی صفات ، نیک آدمی کی دعا ، اگر وہ زندہ ہو-

    اپنی طرف سے ، شرعی وسیلہ بنانا ، جو نہ قرآن مین ہو، نہ حدیث مین ، دین مین تبدیلی ہے ، اور مشرکین سے مشابہت ہے ، کہ وہ اپنی طرف سے ، انبیاء ، فوت شدہ بزرگ، قبرون کو وسیلہ بناتے تھے-

    Comment


    • #3
      Re: احناف اور وسیلہ




      miski bhai aur faisal bhai kahan haian aap

      yahan koi jawab wagheera hee day daian

      Attached Files

      Comment


      • #4
        Re: احناف اور وسیلہ





        miski bhai aur faisal bhai kahan haian aap

        yahan koi jawab wagheera hee day daian






        Comment


        • #5
          Re: احناف اور وسیلہ

          Click image for larger version

Name:	dd.gif
Views:	1
Size:	20.9 KB
ID:	2424351
          sigpic

          Comment


          • #6
            Re: احناف اور وسیلہ

            Originally posted by Faisal Sheikh View Post
            [ATTACH]103906[/ATTACH]


            سلام

            بھائی آپ لوگ اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کا مقلد کہتے ھو

            لیکن جب ان کی بات پیش کی جاتی ہے تو

            اسے کتابوں کا حوالہ کہ دیتے ھو

            امام صاحب کا عقیدہ آپ لوگوں کو کاٹتا ہے

            اس لیے آپ لوگوں نے امام صاحب کو عقیدہ میں ٹھکرا دیا ہے

            چلو اب میں تقلید کا رد قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کرتا ہوں


            تقلید کا رد قرآن سے
            پہلی آیت:- پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔(سورة بنی اسرائیل:36)

            مقلد جو کام بھی کرتا ہے وہ اس گمان اور قیاس پر کرتا ہے کہ میرے امام نے ایسا کیا ہے ضرور ان کے پاس کوئی دلیل ہو گی۔۔۔۔۔اس بات پرعلماءکا اتفاق ہے کہ تقلیدعلم نہیں اور نہ مقلد عالم گردانا جاتا ہے تو بطور تقلید (دلیل جانےبغیر) کسی کی بات ماننا اس آیت کی رو سے ممنوع ٹھہرا۔ آیئے اب ہم اُن آئمہ سلف کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے سینکڑوں سال پہلے اس آیت سے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے:

            1:- امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
            ”التقلید لیس طریقاً ولا موصلاً لہ فی الاصول ولا فی الفروع وہو قول جمھود العقلائِ و العلماءخلافا لما یحکی عن الجھا الحشویہ والثعلبیة من انہ طریق الی معرفة الحق“
            (تفسیر القرطبی :۲۲۱۲)
            تقلید نہ علم کا راستہ ہے اور نہ ہی اصول و فروع میں علم تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، یہ قول تمام علماء اورعقلاء کا ہے جبکہ اسکے برعکس حشویہ اور ثعلبیہ تقلید کو حصولِ حق کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

            2:- امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            ”اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲)
            علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت ِحق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے)۔
            مزید لکھتے ہیں:
            ”وقد اجمع العلماءعلی ان مالم یتبین فلیس بعلم وانماہوظن لا یغنی من الحق شئاً“ (اعلام المو قعین:۲۹۹۱)
            علماءکا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو بات یقینی طور پر دلائل سے ثابت نہ ہووہ علم نہیں ہے بلکہ گمان ہے اور گمان کے ذریعے حق کا حصول نا ممکن ہے۔


            3:- امام شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
            ”ومعنی الایة النھی عن ان یقول الانسان ما لا یعلم او یعمل بما لا علم لہ بہ و یدخل فیہ الآ راءالمدونة فی الکتب الفروعیة مع انھا لیست من الشرع فی شی ئٍ وتدخل تحت ھذہ الآیة“ (ملحضاً فتح القدیر:۳۷۲۲)
            اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہ بات نہ کرے جس کے بارے میں اس کو علم نہ ہو اور نہ اس بات پر عمل کرے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو اور مسائل میں جو کتابیں مقلدین نے لکھی ہیں وہ اسی زمرے میں آتی ہیں یعنی وہ دین کا حصہ نہیں ہیں


            اس کے علاوہ درج ذیل علماءنے اس آیت سے تقلید کے باطل ہونے پر استدلال کیا ہے:
            4:- امام غزالی (المستصفٰی من علم الاصول:۲۹۸۳)
            5:- امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (الرد علی من اخلدالی الارض ص:۵۲۱تا۰۳۱)
            یہی وجہ ہے کہ علامہ زمحشری نے اپنی کتاب ”اطواق الذھب“ میں مقلدین کی جہالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے: ”ان کان للضلال اُم فالتقلید امہ فلا جرم ان الجاھل یومہ“ یعنی اگرگمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اُس کی بھی ماں کہلاتی یہی وجہ ہے کہ جاہل ہی تقلید کا قصد کرتا ہے۔(العیازباللہ)
            دوسری آیت:- اتخذواحبارہم ورہبانہم ارباباًمن دون اللہ (سورہ التوبہ ایت:31)
            ترجمہ:- انھوں نے اپنے احبار (مولویوں) اور رحبار(پیروں) کواللہ کے سوا رب بنا لیا

            اس آیت کی تفسیر نبی علیہ الصلاة والسلام نے خود فرمائی ہے،
            عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (جو اسلام قبول کرنے سے قبل عیسائی تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ الصلاة والسلام کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول علیہ الصلاة والسلام ہم نے ان کی کبھی بھی عبادت نہیں کی اور نہ ہم مولویوں اور درویشوں کو رب مانتے تھے تو نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا:
            اما انھم لم یکونوایعبدونھم ولکن ھم اذا احلو الھم شیئا استحلو واذاحرمواعلیھم شیئا حرموھ

            وہ اپنے علماءکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب ان کے علماءکسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ اسے حلال کر لیتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے تو وہ بھی اسے حرام تسلیم کر لیتے
            (سنن ترمذی مع تحفة الاحوزی ص:۷۱۱ج۴)
            اس آیت سے درج ذیل علماءنے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے:
            1:- امام ابن عبد البررحمہ اللہ(جامع بیان العلم وفضلہ جلد :۲صفحہ :۹۰۱)
            2:- امام ابن حزم رحمہ اللہ (الاحکام فی الاصول الاحکام جلد:۶صفحہ:۳۸۲)
            3:- امام ابنِ القیم رحمہ اللہ(اعلام الموقعین جلد:۲ صفحہ ۰۹۱)
            4:- امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ(باقرارہ، الردعلیٰ من اخلدالی الارض صفحہ ۰۲۱)
            ۵)امام الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (الفقیہ المنفقہ جلد :۲صفحہ:۲۲)

            نوٹ: مقلدین اس آیت پر یہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ یہ آیت تو یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہے۔۔۔۔تو اس کا جواب حاضرِ خدمت ہے:

            پہلا جواب: ” العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب“ یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کے سبب کے خصوص (شانِ نزول) کا۔ اگر ایسا نہ ہو یعنی اگر لفظ کے عموم کا اعتبار نہ کیا جائے تو پھر قرآن مجید کی کوئی آیت ہم پر صادق نہیں آئے گی۔

            دوسرا جواب: نبی علیہ الصلاة والسلام نے ارشاد فرمایا: لتتبعن سنن من کان قبلکم (بخاری،مشکوة ۸۵۴) کہ تم ضرور میرے بعد یہود و نصاریٰ کے طریقہ کار کو اختیار کرو گے اور حقیقت یہی ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنے علماءاور پیروں کو شارع کی حیثیت دی اسی طرح اس امت کے مقلدین نے بھی اپنے اماموں کو وہی حیثیت دے دی۔

            تیسرا جواب: اس آیت سے ہر دور میں علماءنے تقلید کے رد پر استدلال کیا ہے چنانچہ امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            ”وقداحتج العلماءبہذھ الایات فی ابطال التقلید ولم یمنعھم کفر اولئک من الاحتجاج بھا، لا¿ن التشبیہ لم یقع من جھة کفر احدھماوایمان الاخر، وانماوقع التشبیہ بین المقلدین بغیر الحجة للمقلد۔۔۔۔“
            (اعلام الموقعین ج:۲ ص۱۹۱)
            علماءنے ان آیات کے ساتھ ابطال ِ تقلید(تقلید کے باطل ہونے) پراستدلال کیا ہے، انہیں (ان آیات میں مذکورین کے) کفر نے استدلال کرنے سے نہیں روکا، کیونکہ تشبیہ کسی کے کفر یا ایمان کی وجہ سے نہیں ہے، تشبیہ تو مقلدین میں بغیر دلیل کے(اپنے) مقلد(امام،راہنما) کی بات ماننے میں ہے۔
            تیسری آیت:- آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ( اپنے عمل و اعتقاد میں ) سچے ہو تو دلیل لاﺅ۔ (البقرة۔۱۱۱)

            لیکن ہر زمانے میں یہی دستور رہا کہ جب بھی مقلد سے اس کے عمل پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو وہ بجائے دلیل لانے کے اپنے آباءو اجداد اور بڑوں کا عمل دکھاتا کہ یہ کام کرنے والے جتنے بزرگ ہیں کیا وہ سب گمراہ تھے؟ ہم تو انہی کی پیروی کریں گے۔ بالکل یہی بات قرآن کریم سے سنئیے
            اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔ (سورةلقمان۔12)
            بالکل اسی طرح آج بھی کسی مقلدسے جب کہا جاتا ہے کہ بھائی اللہ تعالیٰ کا قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم کی حدیث تو یوں کہتی ہے تو وہ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ھدایہ پر عمل کرتے ہوئے پایا ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ یہی حال قرآن کریم کی زبان سے سنیئے۔
            اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے﴿ (سورة المائدة 104)
            اب مقلدین کچھ بھی کہہ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے:
            قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیں ہو سکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔ (النساء65)
            یہ آیت بتا رہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے راضی نہیں ہیں وہ لوگ کبھی مومن نہیں بن سکتے۔غرض یہ آیت تقلید کے باطل ہونے کی ایک زبردست دلیل ہے۔ اس آیت سے درج ذیل علماءنے تقلید کے ابطال پر استدلال کیا ہے۔
            1:- امام ابنِ حزم رحمہ اللہ (الاحکام۶۵۷۲)
            2:- امام غزالی (المستصفیٰ۲۹۸۳)
            3:- امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ (الرد علی من اخلدالی الارض ص۰۳۱)
            دیگر دلائل کے لئے محولہ کتب کا مطالعہ کیجیے۔



            تقلید کا رد احادیث سے
            پہلی حدیث:- "و کل بدعة ضلالة" اور ہر بدعت گمراہی ہے (صحیح مسلم،کتاب الجمعة باب تخفیف الصلاة والخطبة ح۸۶۸ وترقیم دارالسلام ۵۰۰۲)
            اس سے پہلے بیان کیا جا چکا کہ تقلید چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔
            دوسری حدیث:-(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے (صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح :۷۰۳۷)
            اس سے پہلے بیان کیا جا چکا کہ تقلید (قرآن و حدیث کے) دلائل کے بغیر مجتھد کے اقوال کی اندھا دھند پیروی کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کے تقلید علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔
            مقلد کے جاہل ہونے پر اجماع
            1:- امام ابن قیم رحمہ اللہ"
            القصیدۃ النونیۃ" میں فرماتے ہیں:
            إذ أجمع العلماء أن مقلدا
            للناس والأعمى هما أخوان
            والعلم معرفة الهدى بدليله
            ما ذاك والتقليد مستويان

            "علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
            2:- امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            "یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے یہ جمھود عقلاء کی بہترین بات ہے جس کی مخالفت صرف ثعلبیہ اور حشویہ جیسے جہال نے کی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں" (تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
            3:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            لا یقلد الا غبی او عصبی
            تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
            4:- زمحشری فرماتے ہیں:
            ان کان للضلال ام فالتقلید امھ
            اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی
            (اطواق الذہب۷۴)
            غرض یہ کہ اس طرح کے ان گنت حوالے پیش کیئے جا سکتے ہیں جن میں معتبر عند الفریقین علماء نے تصریح کی ہے کہ مقلد جاہل ہوتا ہے۔ انشاء اللہ مقلدین کی جہالت کی ایک جھلک "تقلید کے نقصانات" میں پیش کی جائے گی۔

            تیسری حدیث:- رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو، عالم کی غلطی ، منافق کا {قرآن لے کر} مجادلہ کرنا اور دنیا جو تمھاری گردنوں کو کاٹے گی۔ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو "فلا تقلدوہ" تب بھی اس کی تقلید نہ کرنا اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے نا امید نہ ہو جاؤ۔۔۔الخ (المعجم الاوسط جلد ۹ ص۶۲۳، روایت مرسل ہے)
            تنبیہ: مقلدین کے نزدیک مرسل روایت بھی حجت ہوتی ہے
            چوتھی حدیث:- جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا"۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ "اس زات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہوتا (رواہ امام احمد ۳/۳۸۷ \و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة ۱/۳۰ \و فی الدارمی۱/۱۱۶)
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر موسی علیہ السلام جیسے معصوم عن الخطاء نبی کی تابعداری بھی جائز نہیں تو 80 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک امتی کی تابعداری کیسے جائز ہو سکتی ہے؟

            Comment


            • #7
              Re: احناف اور وسیلہ


              اب آپ اپنے حنفی علماء کے اقوال بھی پڑھ لیں


              تقلید کا مفہوم فقہ حنفی اور حنفی علماء کے اقوال کی روشنی میں
              تقلید کی لغوی تعریف
              دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب ”القاموس الوحید“ میں لکھا ہے:
              1:- قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا (القاموس الوحیدص:۶۴۳۱)
              2:-ا لتقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی (القاموس الوحیدص:۶۴۳۱)
              3:-امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
              "اما التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیربہاومنہ تقلیدالہدی فکان المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ۔
              یعنی تقلیدلغت میں گلے میں ڈالے جانے والے
              پٹے سے ماخوز ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لئے کہتے ہیں کہ اسمیں مقلد جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا ہے۔ (ارشاد الفحول ص:۱۴۴)
              4:- اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
              ”گردن بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن“
              یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے زمےکوئی کام لگانے کا نام ہے۔اسی طرح اپنے زمہ کوئی کام لینابھی تقلید کہلاتا ہے ، اس کے مجازی معنیٰ یہ ہیں کی حقیقت معلوم کیے بغیرکسی کی تا بعداری کی جائے۔ (غیاث الغات ص:۳۰۱)

              تقلید کی اصطلاحی تعریف

              1:-حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:
              ”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
              تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
              (مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص۰۰۴)
              2:-امام ابن ہمام حنفی (متوفی۱۶۸ھ) نے لکھا ہے:
              ”مسالة:التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ“
              مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔ (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول ج ۳ص۳۵۴)
              نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص ۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے)

              3:-تقلید کی ایک اور مشہور اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے:
              ”ھو عمل بقول الغیر من غیر حجة“
              کسی دوسرے کی بات پر بغیر (قرآن وحدیث کی) دلیل کے عمل کرنا تقلید ہے۔ (ارشاد الفحول ص۱۴۴، شرح القصیدة الامالیة لملا علی القاری حنفی و تفسیر القرطبی ۲۱۱۲)

              4:-قاری چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے:
              ”اور تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بنا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا یہی تقلید ہے“ (غیر مقلدین سے چند معروضات ص۱ عرض نمبر ۱)

              5:-مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:
              کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ ص۶۷)

              6:-اشرف علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے:
              ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ (الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج۳ص۹۵۱ ملفوض:۸۲۲)

              7:-مفتی احمد یار نعیمی حنفی بریلوی لکھتے ہیں:
              ”مسلم الثبوت میں ہے ، ”التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجة“ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضورعلیہ الصلاةوالسلام کی اطاعت کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ انکا ہر قول دلیل ِ شرعی ہے (جبکہ) تقلید میں ہوتا ہے دلیل ِ شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم نبی علیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی کہلائیں گے نہ کے مقلد۔اسی طرح صحابہ کرام اور ائمہ دین حضورعلیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی ہیں نہ کہ مقلداسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گاکیونکہ کوئی بھی ان علماءکی بات یا ان کے کام کواپنے لئے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔۔( جاءالحق ج۱ ص۶۱ طبع قدیم)

              8:-غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے:
              تقلید کے معنی ہیں(قرآن و حدیث کے) دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی امام کہ قول کوکتاب و سنت کہ موافق پا کراور دلائل ِ شرعیہ سے ثابت جان کراس قول کو اختیار کر لینا(شرح صحیح مسلم ج۵ص۳۶)

              9:-سرفرازخان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
              اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداءو اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے (المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص۵۳)

              10:-مام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
              تقلید ایسی بات کے ماننے کو کہتے ہیں جس کی حیثیت اور ماخذ معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کے ماننے کو علم نہیں کہتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ اس (آیت) میں اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کہ گمان اور تقلید کا ۔
              (فقہ اکبر للشافعی رحمہ اللہ ص۰۱)
              نوٹ:
              بریلویوں،دیوبندیوں اور علمِ اصول کے علماءکی ان تعریفوں سے درج باتیں ثابت ہوتی ہیں:
              1:-کسی دوسرے شخص کی بات پر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے بغیر عمل کرنا ”تقلید “ ہے۔
              2:-احادیث پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
              3:-اجما ع پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
              4:-علماءکی بات پر( دلیل جان کر) عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ یہ اتباع کہلاتا ہے۔
              5:-اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں۔
              6:-صرف اس گمان اور قیاس پر امام کی اندھا دھند تقلید کرنا کہ اُس کی بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی باطل ہے کیونکہ اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کے گمانوں اور قیاس آرائیوں کا (دیکھئے امام شافعی کی آخری تعریف)۔
              7:- تقلید اور اتباع میں فرق ہے۔
              مقلدین ہر جگہ یہ شورمچاتے نظر آتے ہیں کہ فلاں غیر مقلد نے اپنے فلاں عالم کی کتاب سے استفادہ کر لیا یا فلاں عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اس لئیے وہ اُس عالم کا مقلد بن گیا ہے۔۔۔۔۔
              جبکہ آلِ تقلید کے اپنے اکابرین نے تقلید کی جو تعریف کی ہے اُس کے مطابق دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہی نہیں۔
              ہم مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک حنفی شخص تقی عثمانی سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور مولانا کے بتا ئے ہوئے مسئلے پر عمل بھی کرتا ہے تو وہ کس کا مقلد کہلائے گا، تقی عثمانی کا یا امام ابو حنیفہ کا؟؟؟ ظاہری بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد کہلائے گا یعنی کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں، اگر یہ تقلید ہے تو پھر اسوقت دنیا میں کوئی ایک بھی حنفی موجود نہیں بلکہ سب اپنے اپنے علماء کے مقلد ہیں۔۔۔۔فما کان جوابکم فھوجوابنا

              Comment


              • #8
                Wasiley ka kail ullma ahle hadis

                1 Nazeer Hussain Dehalvi
                2 Nawab Sadique Hassan Khan
                3 Wahid uz Zaman
                4 Abdul Majeed Sodarvi
                5 Shah Ismail Shahid
                6 Syed Ahmed Shahid
                7 Ghulam Rasool Mehar
                8 Az Bin ABdul Salam
                9 Shah Wali ullah Muhadis Dehalvi
                10 Qazi Ayaz vaghara vaghra
                Note: Jin Nam Nehad ahlehadiso ne (NAZEER HUSSAIN KE MIaR UL HAQ PARHE YA CHAPE HA IN ULLMA AHLE HADIS PER SHAIRK KA FATA Q NAHE LAGA )
                mr lovely or shz tum pehle wale sawal ka jawab na de sake mazid apka lea
                khas shaz ka lea ( ya sub ghair mukalid Nabi Alehisalam ko QABAR MA ZINDA MANTE HA) ap ka kia fatwa ho ga apne ullma ahle hadis k lea????????
                In books ke asal mojood ha ap in per shairk ka fatwa do hawale hum paish karte ha
                .

                Comment


                • #9
                  Re: Wasiley ka kail ullma ahle hadis

                  Originally posted by shahmeer View Post
                  1 Nazeer Hussain Dehalvi
                  2 Nawab Sadique Hassan Khan
                  3 Wahid uz Zaman
                  4 Abdul Majeed Sodarvi
                  5 Shah Ismail Shahid
                  6 Syed Ahmed Shahid
                  7 Ghulam Rasool Mehar
                  8 Az Bin ABdul Salam
                  9 Shah Wali ullah Muhadis Dehalvi
                  10 Qazi Ayaz vaghara vaghra
                  Note: Jin Nam Nehad ahlehadiso ne (NAZEER HUSSAIN KE MIaR UL HAQ PARHE YA CHAPE HA IN ULLMA AHLE HADIS PER SHAIRK KA FATA Q NAHE LAGA )
                  mr lovely or shz tum pehle wale sawal ka jawab na de sake mazid apka lea
                  khas shaz ka lea ( ya sub ghair mukalid Nabi Alehisalam ko QABAR MA ZINDA MANTE HA) ap ka kia fatwa ho ga apne ullma ahle hadis k lea????????
                  In books ke asal mojood ha ap in per shairk ka fatwa do hawale hum paish karte ha
                  .


                  ہمارے پاس ایک معیار موجود ہے کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اب اگر کسی بزرگ کی بات اس معیار پر پوری نہ اترے تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ‫:
                  ہمارے نزدیک اس بزرگ کا کوئی مقام نہیں یا ہم ان کی ہر بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں یا ہمارا ان کی بات کو نہ ماننا ، ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟

                  سنن نسائی کی ایک روایت سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

                  مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا

                  بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك
                  میں آپ کے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔
                  النسائی ، كتاب الحج ، لمواقیت ، باب : القران
                  (حدیث "حسن" ہے)




                  وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

                  کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے حکم کو نہ ماننا ، توہین کہلائے گا؟
                  کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس فعل سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت
                  عثمان (رضی اللہ عنہ) کی عزت و تکریم نہیں کی
                  ؟

                  ایسی بہت سی مثالیں دورِ صحابہ میں مل جاتی ہیں۔ اور یہ تو صحابہ کا معاملہ تھا ۔۔۔ اب ذرا سوچ لیں کہ دوسرے ائمہ کرام یا بزرگانِ دین کس شمار و قطار میں ہیں؟

                  ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔

                  لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔

                  اس حدیث کے بارے میں بھی اپنی رائے دے دیں

                  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔

                  (ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)


                  پلیز بتائیں کہ عبدللہ بن عمر راضی اللہ نے اپناؤ والد کی تقلید کیوں نہیں کی


                  ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔

                  لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔







                  Comment


                  • #10
                    Re: احناف اور وسیلہ

                    لولی اللہ کا خوف کرو کیوں اتنے تقلید میں اندھے ہوگئے کہ قرآن کی سمجھ بھی ختم ہوگئی
                    میں نے تمھیں پہلے بھی سمجھایا تھا تمھارے شیخ تمھیں گمراہ کر رہے ہیں آیات کی غلط
                    تشریح بتا رہے ہیں یہ آیات اترنے کا یا اللہ کے بیان کا مقصد اور تھا جیسے پہلی آیت بتائی بنی اسرائیل کی
                    اس میں جھوٹے گواہ اور اس کی گواہی کو تنبیہ کیا گیا




                    دوسری اور تیسری آیت نصرانی یا عیسائیوں کو تنبیہ کی گئی سچے ہو تو دلیل لاؤ اسی طرح مریم پادریوں کے متعلق
                    اللہ کی آیت تھی جسے عیسائیوں کی طرح معاذ اللہ توڑ مروڑ کر اللہ پہ جھوٹ باندھا گیا




                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #11
                      Re: احناف اور وسیلہ

                      Originally posted by Sub-Zero View Post
                      لولی اللہ کا خوف کرو کیوں اتنے تقلید میں اندھے ہوگئے کہ قرآن کی سمجھ بھی ختم ہوگئی
                      میں نے تمھیں پہلے بھی سمجھایا تھا تمھارے شیخ تمھیں گمراہ کر رہے ہیں آیات کی غلط
                      تشریح بتا رہے ہیں یہ آیات اترنے کا یا اللہ کے بیان کا مقصد اور تھا جیسے پہلی آیت بتائی بنی اسرائیل کی
                      اس میں جھوٹے گواہ اور اس کی گواہی کو تنبیہ کیا گیا




                      دوسری اور تیسری آیت نصرانی یا عیسائیوں کو تنبیہ کی گئی سچے ہو تو دلیل لاؤ اسی طرح مریم پادریوں کے متعلق
                      اللہ کی آیت تھی جسے عیسائیوں کی طرح معاذ اللہ توڑ مروڑ کر اللہ پہ جھوٹ باندھا گیا








                      کچھ لوگوں کو قرآن سے شرک کی تعریف نہیں ملتی۔ تو کچھ یہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں شرک ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب ثبوت کے طور پر قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں کہ بھائی جب اس امت میں شرک ہونا ہی نہیں تھا تو قرآن کی اتنی ساری آیات شرک کی مذمّت میں کیوں اتریں؟ تو ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ اتنی ساری آیات اتری ہیں اسی لئے تو شرک کا وجود نہیں ہے! بڑی عجیب بات ہے کہ نماز کے تعلق سے بھی بہت آیات اتریں لیکن بے نمازیوں کا وجود ختم نہ ہو سکا۔ گویا قرآن کی آیات کا بے معنی ہونا (نعوذ باللہ) ثابت ہو جائے تو ان کی بلا سے، لیکن امت میں شرک کو ماننا نہیں! جبکہ یہی معترضین عیسائیوں ، ہندوؤں اور یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ماننے کے باوجود ان کو مشرک بھی مانتے ہیں!




                      آیت کریمہ: ﴿ وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون ﴾ ... سورة یوسف کہ ��ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔�� کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ اس امت میں شرک نہیں ہو سکتا، تو پھر اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔




                      میری ناقص رائے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ گروہوں اور جماعتوں کو فوکس نہیں کرتیں، بلکہ ان میں حلال وحرام اور کیا چیز صحیح ہے اور کیا غلط کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہم نصوص کا جائزہ لیں تو سزا یا جزا اور لعنت وملامت وغیرہ سب احکامات اچھے یا برے افعال پر لگائے گئے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی تو فرمایا کہ ان کا نام لینے کی بجائے فرمایا:


                      ﴿ إٍنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴾ ... سورة البقرة ١٥٩
                      کہ ��جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔��

                      تو گویا یہودیوں پر نہیں بلکہ ہر علم کو چھپانے والے پر لعنت کی گئی۔ اسی طرح دیگر مثالیں بھی دی جاسکتی ہے۔ نبی کریمﷺ بھی جب بعض لوگوں کی غلطی واضح کرنا چاہتے ان مخصوص لوگوں کو پوائنٹ آؤٹ کیے بغیر فرماتے: � ما بال أقوام يفعلون كذا وكذا � گویا اصل زور فعل شنیع پر ہوتا، نہ کہ کرنے والی جماعت پر، بلکہ اس جماعت یا ان لوگوں کی پردہ پوشی کی ہی ترغیب ہمیں دی گئی۔
                      بلکہ شریعت کی نصوص میں جب مؤمنین، منافقین یا کفار کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس سے کچھ مخصوص لوگ مراد نہیں ہوتے ہر ایمان لانے والا، ہر نفاق کا مظاہرہ کرنے والا، ہر انکار کرنے والا مراد ہوتا ہے۔ وگرنہ اگر اس طرح ہم نصوص کو مخصوص گرہوں پر چسپاں کرتے رہے تو پھر صحابہ کرام ﷢ کے بعد آنے والے لوگوں کیلئے ایک لحاظ سے تمام شریعت کالعدم ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص یہی دعویٰ کرے گا کہ یہ آیت مبارکہ تو فلاں کافر یا منافق کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس کا اطلاق مجھ پر کیسے ہوسکتا ہے، اسی لئے علماء کے ہاں ایک قاعدہ بہت معروف ہے: (العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب) کہ ��اعتبار نص میں موجود لفظوں کی عمومیت کا ہوتا ہے، نہ کہ کسی مخصوص واقعہ کا (جس کی سبب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔)�� یعنی اگر قرآن کریم میں چوری کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے تو نبی کریمﷺ کے دور میں پیش آنے والے واقعات پر چوری کی سزا آسمان سے نازل ہوئی۔ تو کیا آج کسی کو چوری کی سزا نہیں دی جا سکتی؟ اس بناء پر کہ یہ آیات تو صرف فلاں فلاں چور کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ سورۃ المجادلہ میں موجود ظہار کا حکم سیدنا اوس بن صامت﷜ اور ان کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے متعلق نازل ہوا تھا۔ کیا اس حکم کو صرف انہی کے ساتھ خاص کر کے آئندہ کیلئے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا جائے؟؟؟ زنا کی سزا مخصوص لوگوں کیلئے نازل ہوئی تھی، کیا آج اس کا اطلاق نہیں ہوگا؟؟؟ اس طرح تو شریعت بازیچۂ اطفال بن جائے گی۔
                      تو یہ ایک شیطانی چال اور وسوسہ ہے کہ وہ تمام آیات جو کفار ومشرکین کے متعلّق نازل ہوئیں وہ انہی کے ساتھ خاص ہیں، ان کا آج کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا سوال ہے ان لوگوں سے کہ فرمانات نبویﷺ: �من حلف بغير الله فقد أشرك�، �من علق تميمة فقد أشرك�، �بين العبد و بين الكفر و الإيمان الصلاة ، فإذا تركها فقد أشرك�، �من ردته الطيرة عن حاجته ، فقد أشرك�، �أيما عبد أبق من مواليه فقد كفر حتى يرجع إليهم�، �من أتى حائضا ، أو امرأة في دبرها ، أو كاهنا فصدقه ؛ فقد كفر بما أنزل على محمد�، �من أعطي عطاء فوجد فليجز به ، ومن لم يجد فليثن ، فإن من أثنى فقد شكر ، ومن كتم فقد كفر ، ومن تحلى بما لم يعطه كان كلابس ثوبي زور�، �من أتى النساء في أعجازهن ؛ فقد كفر�، �من ادعى لغير أبيه وهو يعلم فقد كفر ، ومن ادعى قوما ليس هو منهم فليتبوأ مقعده من النار ، ومن دعا رجلا بالكفر ، أو قال : عدو الله ، وليس كذلك إلا حارت عليه �، �إذا قال للآخر : كافر ، فقد كفر أحدهما ، إن كان الذى قال له كافرا ؛ فقد صدق ؛ وإن لم يكن كما قال له فقد باء الذى قال له بالكفر� وغیرہ وغیرہ ان کفر وشرک کے احکامات کو کیا صرف نبی کریمﷺ کے دور کے کفار ومشرکین پر لاگو کیا جائے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
                      واضح رہے کہ جاويد احمد غامدی صاحب کا طریقہ واردات بھی یہی ہے، وہ جہاد کو بنی اسمٰعیل کے ساتھ، پردہ کو صرف امہات المؤمنین کے ساتھ اور دیگر کئی احکامات کو اسی دور کے ساتھ خاص کر کے ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو ایک انتہائی مذموم فعل ہے، اور یہی طریقہ کار غلام احمد پرویز کا بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی حیثیت صرف اس دور کے ایک حکمران (مرکز ملت) کی تھی لہٰذا ان کی تمام تشریحات (احادیث مبارکہ) اس �دقیانوسی دَور� کے ساتھ خاص ہیں، تو جس طرح انہوں نے قرآن کی تشریح کی، اسی طرح آج کے حکمران خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، مرکز ملت کے طور جدید دَور کے مطابق (انگریزوں کے مطابق) قرآن پاک کی تفسیر (تحریف) کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللہ!
                      اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں۔
                      واللہ تعالیٰ اعلم







                      Comment


                      • #12
                        Re: احناف اور وسیلہ

                        Originally posted by Sub-Zero View Post
                        لولی اللہ کا خوف کرو کیوں اتنے تقلید میں اندھے ہوگئے کہ قرآن کی سمجھ بھی ختم ہوگئی
                        میں نے تمھیں پہلے بھی سمجھایا تھا تمھارے شیخ تمھیں گمراہ کر رہے ہیں آیات کی غلط
                        تشریح بتا رہے ہیں یہ آیات اترنے کا یا اللہ کے بیان کا مقصد اور تھا جیسے پہلی آیت بتائی بنی اسرائیل کی
                        اس میں جھوٹے گواہ اور اس کی گواہی کو تنبیہ کیا گیا




                        دوسری اور تیسری آیت نصرانی یا عیسائیوں کو تنبیہ کی گئی سچے ہو تو دلیل لاؤ اسی طرح مریم پادریوں کے متعلق
                        اللہ کی آیت تھی جسے عیسائیوں کی طرح معاذ اللہ توڑ مروڑ کر اللہ پہ جھوٹ باندھا گیا




                        sub zero sahab,
                        ager ap kehte ho ke ye ayaat nasara ke bare mian hain tu phir " surah almaidah" ki ayat 45 ke bare mian ap ka kia khayal hai jis main qasas ke ahkam hain.aur is mian bani israil ko khitab kia gaya hai mager mufasreen farmate hain ke ye hukum umat muslimah ke liye bhi hain tu lolytime bhai sahi keh rehe hai ke aik hukum umum hota hai aur jo ayat anho ne likhi hai wo isi ke taht ati hai ke is mian khitab bani asrail se hai aur tanbhi umat muslimah ko ki jarahi hai. Allah ap ko smajh ata kare.

                        Comment


                        • #13
                          Re: احناف اور وسیلہ

                          جو بات اللہ نے کی ہی نہیں اس کو زبردستی اللہ سے منسوب کرنا اور بغلیں بجانا یہ واقعی آپ کا کام ہوسکتا ہے
                          کسی مسلمان کو یہ زیبب نہیں دیتا کہ وہ قرآن کے معنی خود گڑھے جیسا کہ آیت ہے
                          Attached Files
                          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                          Comment


                          • #14
                            Re: احناف اور وسیلہ

                            [COLOR="#000080"]Ahnaaf aur Baralvi hazraat ka alam tu ye hai k...!!

                            1-Nabi Karim (s.a.w) ku zinda hazir aur nazir hain[/COLOR](nauzu billah minn zalik) ....aur kehtay hain.,.aap ka koi ummati Shirk nahi ker sakta...!!

                            2-Nabi Karim (s.a.w) ku aalim-o-ul-ghaib manthy hain.....aur masala poochnay k liye apnay alim k paas jaaty hain...!! Kia ye Nabi Karim (s.a.w) ki tuheen nahi..??

                            Inn Nadaano say koi ye poochay k ager Nabi karim (s.a.w) fout nahi hoay aur woh alim-ul-ghaib bhi hain...mushkil kusha bhi hain...aap ki mahafil main bi tashreef latay hain....tu aap unn say kyuon nahi baraherast (direct) pooch laitay k kia sahi hai aur kia ghalat hai???...kiss ayat ka kiay mafhoob hai??....biddat kiss ku kehtay hain...shirk ka kia qanoon hai....??....kia Nabi karim (s.a.w) iss liye zinda hain...k aap loogoon k sirf zaati masaail hi hal ker saktay hain...??

                            مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ
                            اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دار نہیں ہیں
                            9. يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
                            الله اور ایمان داروں کو دھوکا دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور نہیں سمجھتے
                            10. فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
                            انکے دلوں میں بیماری ہے پھر الله نے ان کی بیماری بڑھا دی اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے


                            Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                            Comment


                            • #15
                              Re: احناف اور وسیلہ

                              Originally posted by Sub-Zero View Post
                              جو بات اللہ نے کی ہی نہیں اس کو زبردستی اللہ سے منسوب کرنا اور بغلیں بجانا یہ واقعی آپ کا کام ہوسکتا ہے
                              کسی مسلمان کو یہ زیبب نہیں دیتا کہ وہ قرآن کے معنی خود گڑھے جیسا کہ آیت ہے



                              مشرکین اللہ کو اپنا خالق مانتے تھے۔۔

                              اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں

                              سورة الزخرف ۸۷

                              مشرکین آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ ہی کو مانتے تھے۔۔۔

                              اور اگر آپ اُن سے دریافت فرمائیں کہ آسمانوں اور زمین کو کِس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے

                              ۳۸سورة الزمر

                              مشرکین آسمان سے پانی برسا نے والا اللہ ھی کو مانتے تھے۔۔۔۔

                              اور البتہ اگر تو ان سے پوچھے آسمان سے کس نے پانی اتارا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا کہیں گے الله نے

                              سورة العنكبوت ۶۳

                              مشرکین رازق متصرف فی الاموراللہ ہی کو مانتے تھے۔۔۔۔

                              کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ

                              سورة يونس
                              ۳۱

                              مشرکین عرش عظیم کا رب اللہ ہی کو مانتے تھے۔۔۔۔

                              ان سے پوچھو یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے اگر تم جانتے ہو ﴿۸۴﴾ وہ فوراً کہیں گے الله کاہے کہہ دو پھر تم کیوں نہیں سمجھتے ﴿۸۵﴾ ان سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ﴿۸۶﴾ وہ فوراً کہیں گے الله ہے کہہ دوکیاپھر تم الله سے نہیں ڈرتے ﴿۸۷﴾ ان سے پوچھو کہ ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور وہ بچا لیتا ہے اور اسے کوئی نہیں بچا سکتا اگر تم جانتے ہو ﴿۸۸﴾ وہ فوراً کہیں گے الله ہی کے ہاتھ میں ہے کہہ دو پھرتم کیسے دیوانے ہو رہے ہو ﴿۸۹

                              سورة المؤمنون

                              مشرکین حج کیا کرتے تھے۔۔۔

                              پھر تم لوٹ کر آؤ جہاں سے لوٹ کر آتے ہیں اور الله سے بخشش مانگو بے شک الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے ﴿۱۹۹

                              سورة البقرة

                              مشرکین حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اور بیت اللہ کے خادم تھے۔۔۔

                              کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد حرام کا آباد کرنا اس کے برابر کر دیا جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور الله کی راہ میں لڑا الله کہ ہاں یہ برابر نہیں ہیں اور الله ظالم لوگوں کو راستہ نہیں دکھاتا ﴿۱۹

                              سورة التوبة

                              مشرکین زکوٰۃ بھی دیتےتھے

                              اور الله کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اس کے لیے مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ الله کا حصہ ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے سو جو حصہ ان کے شریکوں کا ہے وہ الله کی طرف نہیں جا سکتا اور جو الله کا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں ﴿۱۳۶﴾

                              سورة الأنعام


                              آج کے مشرک بھی یہی ساری عبادات کرتے ہیں مگر شرک کی وجہ سے انکا کوئی بھی نیک عمل قابل قبول نہیں ہے کیونکہ الله نے قرآن میں اپنے نبیوں کے لیے ہی فرما دیا ہے کہ

                              اگر یہ لوگ شرک کرتے تو البتہ جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کچھ ضائع ہو جاتا ﴿۸۸

                              سورة الأنعام


                              Comment

                              Working...
                              X