Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بیوی کا عاشق

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بیوی کا عاشق


    بیوی کا عاشق



    کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔




    دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔

    عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔

    جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا

    کہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟

    یا وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟

    یا وہ بہت زیادہ عیال دار اور بچے پیدا کرنے والی عورت رہی ہے؟

    یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟

    تو عورت نے یوں جواب دیا کہ

    خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے۔

    مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی مالدار عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُنکے مال متاب سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔

    اور نا ہی عیالدار اور بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے پیدا کئے مگر نا خاوند اُنکے مشکور ہوئے اور نا ہی وہ اپنے خاوندوں سے کوئی خصوصی التفات اور محبت پا سکیں بلکہ طلاق تک نوبتیں جا پہنچیں۔

    اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔

    تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی کا کیا راز ہے؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟

    اُس نے جواب دیا: جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں ( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو بھانپ لیا کرتا ہے۔

    اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟

    اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔

    تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کیلئے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟

    اُس نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔

    اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟

    اُس عورت نے کہا: میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔

    جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔

    تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟

    ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔

    کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟ غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا، تم مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُسکی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟

    تو پھر آپکی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟

    کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!

    میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔

    جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔





  • #2
    Re: بیوی کا عاشق

    غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا؟؟؟؟؟
    میرے بھائی طلاق تو غصےمیں ھی دی جاتی ھے
    آپکے یہ الفاظ درست نھیں ھیں

    Comment


    • #3
      Re: بیوی کا عاشق

      طلاق جیسا فعل غصے کے عالم میں ہی انجام پاتا ہے اب کوئی ہنستے ہوئی طلاق تو دیتا نہیں
      I aM Not a complete Idiot......Some parts are Missing........

      Comment


      • #4
        Re: بیوی کا عاشق

        اس تحریر میں موجود طلاق سےمتعلق غلطی میں ایک اور جگہ پر پہلے بھی تصیح کر چکا ہوں

        اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہاں پر بھی یہ پوسٹ آپ ہی کی تھی

        اس کے باوجود آپ نے ویسے کی ویسے کاپی پیسٹ کر دی؟؟؟
        :star1:

        Comment


        • #5
          Re: بیوی کا عاشق

          Originally posted by Madiha kanwal View Post
          غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا؟؟؟؟؟
          میرے بھائی طلاق تو غصےمیں ھی دی جاتی ھے
          آپکے یہ الفاظ درست نھیں ھیں


          حالتِ غصہ میں دی گئی طلاق کا حکم

          غضب کی تعریف
          یہ غضب، یغضب غضباً سے مصدر ہے۔کہا جاتا ہے رجل غضبان اور امرأة غضبی۔ یہ رضا کی ضد ہے۔(لسان العرب:٥؍٣٦٦٢)
          مطلقاًیہ غصہ اور اشتعال کے لیے بولا جاتا ہے۔
          جرجانی کہتے ہیں:
          ’’الغضب تغیر یحصل عند غلیان دم القلب لیحصل عنه التشف للصدر‘‘(التعریفات:ص١٦٢)
          ’’دل کے خون کے کھولنے کی وجہ سے جو تغیر ہوتا ہے اس کوغضب کہتے ہیں تاکہ دل کو تسلی ہو سکے۔‘‘
          غصے کی حالتیں
          غصے کی تین حالتوں کا تذکرہ کیا گیاہے:
          1۔یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اورجو وہ کہہ رہا ہو اس کو بخوبی جانتاہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہوجائے گی اور وہ اپنے اقوال کا مکلف ہوگا۔(جامع العلوم والحکم:ص١٤٨)
          2۔ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
          ابن قیم فرماتے ہیں:
          ’’وذلك أنه لم یعلم صدور الطلاق منه فهو شبه مایکون بالنائم والمجنون ونحوهم‘‘(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان:ص٣٩)
          ’’چونکہ وہ طلاق کے صدور کے متعلق نہیں جانتا ہوتا لہٰذا وہ بھی سوئے ہوئے اور پاگل وغیرہ کے مشابہ تصور ہوگا۔‘‘
          3۔غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ہو۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کی تنفیذ اور عدم تنفیذ میں علما کے مابین اختلاف ہے۔(ایضاً)
          غصے کے حالت میں دی گئی طلاق کا حکم
          غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں دو قسم کی آرا ہیں:
          1۔اَحناف اور بعض حنابلہ کا موقف ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار نہیں ہوگی۔(حاشیہ ابن عابدین:٢؍٤٢٧)
          2۔مالکیہ اور حنابلہ کا خیال ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا۔(حاشیہ الشرح الکبیر:٢؍٣٦٦)
          فریق اوّل کے دلائل
          احناف اور ان کے مؤیدین نے درج ذیل ادلہ سے استدلال کیا ہے:
          1۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
          «لا طلاق ولا عتاق في غلاق»(سنن ابوداؤد:٢١٩٣) ’’ زبردستی کی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘

          اور زبردستی غصے کو بھی شامل ہے، کیونکہ اس میں رائے پر بندش لگ جاتی ہے۔


          2۔فرمان عالیشان ہے:’’لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ ‘‘(البقرہ:225)
          ’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں۔‘‘
          ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
          ’’لغو الیمین أن تحلف وأنت غضبان‘‘(بیہقی2؍450)
          ’’لغو قسم یہ ہے کہ آپ غصے کی حالت میں قسم اٹھائیں۔‘‘
          اسی پر قیاس کرتے ہوئے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی طلاق شمار نہیں کیا جائے گا۔(طلاق الغضبان: ص٣٢)
          3۔فرمان الٰہی ہے:’’وَ اِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ‘‘(الاعراف:200)
          ’’اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجئے۔‘‘
          متکلم شدید غصے کی حالت میں شیطان کے بہکانے سے طلاق یا اس طرح کے دیگر الفاظ غیر ارادی طور پر بول دیتا ہے۔ لہٰذا یسی حالت میں اس پر طلاق احکام مترتب نہیں ہوں گے۔(طلاق الغضبان:ص٣٥)
          رسول اکرمﷺنے فرمایا: «إن الغضب من الشیطان»(سنن ابوداؤد: ٤٧٨٤) ’’غصہ شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘
          4۔عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
          «لا نذر في غضب و کفارته کفارة یمین»(سنن نسائی:٣٨٤٢) ’’غصے کی حالت میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‘‘
          خدا تعالیٰ نے اپنی نذروں کو پورا کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ تو جب حالت غضب میں مانی گئی نذر میں رخصت موجود ہے تو طلاق میں یہ رخصت کیوں باقی نہ رکھی جائے۔(طلاق الغضبان:ص٤١)
          5۔حدیث ابوبکرہ: «لا یقض القاض بین اثنین وهو غضبان»(سنن ابن ماجہ:٢٣١٦)
          ’’قاضی غصے کی حالت میں دو لوگوں کے مابین فیصلہ نہ کرے۔‘‘
          اس کی وجہ یہ ہے کہ غصہ علم و ارادہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور درست فیصلہ کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق بھی معتبر نہیں ہو گی۔(طلاق الغضبان:ص٤٣)
          (vi) نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا وقوع نہیں ہوتا کیونکہ متکلم کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہوتا، یاد رہے کہ غصے کی حالت نشے سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔(طلاق الغضبان: ص٤٥)
          مذکورہ دلائل کا جائزہ
          1۔اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی بیان کردہ حدیث اس نزاع سے خارج ہے، کیونکہ اس سے مراد زبردستی ہے۔ اور زبردستی محض غصے کانام نہیں ہے۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الغلاق انسداد باب العلم والقصد علیه‘‘(تہذیب السنن:٦/١٨٧)
          ’’غلاق علم و ارادہ کے دروازہ کو بند کرتا ہے۔‘‘
          لہٰذا یہ غصے کی دوسری حالت کو شامل ہے۔ جس میں بالاتفاق طلاق واقع نہیں ہوتی۔
          2۔حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب تفسیر صحیح نہیں ہے۔
          ابن رجب فرماتے ہیں: ’’لا یصح إسناده‘‘(جامع العلوم والحکم:ص١٤٩)
          ’’اس کی سند صحیح نہیں ہے۔‘‘
          اور اسی آیت کی تفسیر میں آپ سے دیگر اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں۔جیسا کہ ابن ابی حاتم نے تفسیر ابن کثیر(١/٢٦٨) میں سعید بن جبیر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ ’’لغو قسم وہ ہے جس میں آپ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہو۔‘‘
          ابن رجب فرماتے ہیں:
          ’’صح عن غیر واحد من الصحابة أنهم أفتوا أن یمین الغضبان منعقدة وفیها الکفارة‘‘(جامع العلوم والحکم: ص١٤٩)
          ’’دیگر بہت سے صحابہ کرام نے فتویٰ دیا کہ غصے کی حالت میں اٹھائی گئی قسم کا انعقاد ہوگا اور اس(کو پورا نہ کرنے ) پرکفارہ ہوگا۔‘‘
          3۔یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں انسان شیطان کی اکسانے پر بول رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پرحکم مرتب نہ ہوگا۔ تو ایسا کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر گناہوں اور بُرائیوں کا ظہور تو شیطان کی اکساہٹ اور وساوس ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھراس کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کے اکسانے پرکیے جانے والے کسی بھی عمل پر احکام مرتب نہ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سراسر خام خیالی ہے۔
          4۔حضرت عمران بن حصین کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہے۔
          5۔’’ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے قاضی کو حالت غصہ میں فیصلہ نہ کرنے کا پابند کیا ہے۔ یہ قاضی کے مکلف ٹھہرتا ہے پھر یہ بھی ہے کہ قاضی نے تو اپنے علاوہ کسی اور کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جب کہ طلاق دینے والا خود ا اپنا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے اس لیے طلاق دینے والے کو قاضی پرنہیں کیا جا سکتا‘‘
          6۔اس حالت کو نشہ پر قیاس کرنادرست نہیں ہے۔ کیونکہ نشہ میں تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور اسے پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور یہ غصہ کی دوسری حالت ہے۔ ایسی حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
          ’’ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ‘‘(النساء : ٤٣)
          ’’اے ایمان والو جب تم نشہ میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔ جب تک کہ اپنی بات سمجھنے نہ لگو۔‘‘
          فریق ثانی کے دلائل
          مالکیہ اور حنابلہ نے درج ذیل دلائل کو سامنے رکھا ہے:
          1۔خولہ بنت ثعلبہ اوس بن ثابت کی اہلیہ تھیں،ایک روز ان دونوں میں جھگڑا ہو گیا تو اوس بن ثابت نے غصے سے ظہار کرڈالا۔حضرت خولہ یشانی کی حالت میں حضور نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ظہار نازل فرمائیں۔ پھررسول اللہﷺان کو ظہار کے کفارہ کا حکم دیا۔(سنن ابن ماجہ:٢٠٦٣)
          2۔اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کرنے کے باوجود اس کا کفارہ ادا کیا۔ طلاق بھی ظہار ہی کی طرح ہے۔(جامع العلوم:ص١٤٩)
          ابن رجب جامع میں فرماتے ہیں:
          ’’اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کیا تھاپھر بھی رسول اللہﷺنے ظہار کو طلاق شمار کیا اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ لازم کیا تو آپﷺ نے اوس بن ثابت کو کفارہ سے بری قرار نہیں دیا۔‘‘(ص:١٤٩)

          ان احادیث پر یہ اعتراض وارد کیا جاسکتا ہے کہ یہ غصے کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے اور اس سے غصے کی پہلی قسم مراد ہے۔اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ حدیث مطلق طور پر عمومی غضب سے متعلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں اور احتمالی جگہ پر تفصیل کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو عموم پر محمول کیا جائے۔ اس میں اگرچہ غصہ کی تینوں حالتیں اور ہر غصے کی حالت میں دی گئی طلاق لازم ہوگی۔ لیکن اجماع امت سے وہ حالت اس سے نکل گئی جب غصہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح اس حدیث میں دوسری دونوں قسمیں شامل ہوں گی۔


          3۔مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: میں اپنے آپ میں اس قدر جرأت نہیں پاتاکہ تیرے لیے وہ حلال کردوں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیاہے۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔(دارقطنی:٤/١٣)
          4۔حسن کا قول ہے:سُنی طلاق یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو۔ ایسی صورت میں اس کے بعد تیسرے حیض تک اسے اختیار حاصل ہوگا کہ وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔اگر آدمی نے غصے میں طلاق دی ہے تو تین حیض یا تین مہینے میں اس کا غصہ کافور ہو سکتا ہے۔(جامع العلوم والحکم: ص ١٤٩)
          5۔قاعدہ فقہیہ ہے:
          ’’دلالة الأقوال تختلف بها دلالة الأقول في قبول دعوی ما یوافقها ورد ما یخالفها وتترتب علیها الأحکام بمجردها‘‘(القواعد لابن رجب: ص٣٢٢)
          ’’دعویٰ کو قبول کرنے میں احوال کی حالت اقوال سے مختلف ہوتی ہے۔ ۔احوال پر احکام مرتب ہوں گے چاہے اقوال احوال کے مخالف ہوں یا موافق۔‘‘
          ابن رجب فرماتے ہیں: اس قاعدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار ہوگی اور کسی کا یہ دعویٰ کہ طلاق کارادہ نہ تھا، قابل قبول نہ ہوگا۔
          مغنی لابن قدامہ میں ہے:
          ’’والغضب ههنا یدل علی قصد الطلاق فیقوم مقامه‘‘(8 ؍450)
          ’’یہاں پر غصہ ارادہ طلاق پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا اس کو اس کے مقام پر محمول کیا جائے گا۔‘‘
          راجح موقف
          سابقہ مبحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالکیہ، حنابلہ اور ان کے مؤیدین کا موقف راجح ہے، کہ غصہ کی حالت میں طلاق کا وقوع ہوجائے گا اور اس کی ترجیح درج ذیل امور کی وجہ سے ہے:

          1۔دلائل کی قوت۔
          2۔مسئلے پر مکمل گرفت اور وضاحت۔
          3۔مخالفین کے دلائل کا ضعف۔
          4۔قاعدہ ہے:

          ’’أن الأصل فی الأبضاع التحریم فالواجب التثبت في مرها والتنبه لها‘‘








          خلاصہ
          فقہاء، محدثین، مفسرین اور اصولیین کی آراء کو نقل کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
          1۔مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔
          2۔اورایسے غصے کی حالت میں طلاق، جس میں انسان اپنے ہوش و حواس میں ہوتا ہے، طلاق واقع ہو جائے گی۔
          یہ بات ذہن میں رہے کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پرخدا تعالیٰ نے طلاق کو حلال قرار دیا ہے۔ اسے دیگر امور کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔ جیساکہ بعض تربیت اور ڈرانے دھمکانے کے نام پر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے کے سوا کچھ نہیں۔

          Comment


          • #6
            Re: بیوی کا عاشق

            آپ کے خلاصے میں بس یہی بات درست ہےکہ غصے میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے

            اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ فرد غصے کی کس حالت میں تھا؟؟؟

            لہذا ان چکروں میں پڑنے کے بجائے طلاق طلاق ہی ہوتی ہے چاہے وہ غصے کی کوئی بھی حالت ہووووو۔۔

            ایک فرد طلاق دے کر بعد میں پچھتائے اور کہہ دے کہ جی میں تو غصے کی اُس حالت میں تھا تو کون فیصلہ کرے گا کہ سچ بولتا ہےکہ جھوٹ

            اور جو اُس کے جھوٹ کو مانتے ہوئے زوجین کے تعلق کی اجازت دئے رکھیں گے وہ ہر اُس مرتبہ گناہ کے مرتکب ہونگے جب جب وہ فرد اپنی بیوی سے زوجین کا تعلق قائم کرے گا

            آج کی صبح کی سحری کی نشریات میں جیو ٹی وی کے عامر لیاقت کے پروگرام میں "جبری طلاق"کے بارے میں وہاں موجود مولانا صاحب کا جواب سن کر ہنسی آنے لگی

            کہتے ہیں کہ اگر بندوق کی نوک پر طلاق لکھوا لی تو طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر منہ سے کہہ دیا تو ہوجائے گی۔

            اب کوئی اُن سے یہ پوچھے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ زبان سے بولنا بھی لازمی ہے تو وہ بندوق کی نوک پر سیدھی سیدھی دھمکی دیں گےکہ بچہ جی منہ سے اقرار کروووو

            تو کیا یہ اقرار جبریت کے زمرے میں نہیں آئے گا؟؟؟

            وللہ العلم الصواب۔
            :star1:

            Comment


            • #7
              Re: بیوی کا عاشق

              Originally posted by S.A.Z View Post

              آج کی صبح کی سحری کی نشریات میں جیو ٹی وی کے عامر لیاقت کے پروگرام میں "جبری طلاق"کے بارے میں وہاں موجود مولانا صاحب کا جواب سن کر ہنسی آنے لگی

              کہتے ہیں کہ اگر بندوق کی نوک پر طلاق لکھوا لی تو طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر منہ سے کہہ دیا تو ہوجائے گی۔

              اب کوئی اُن سے یہ پوچھے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ زبان سے بولنا بھی لازمی ہے تو وہ بندوق کی نوک پر سیدھی سیدھی دھمکی دیں گےکہ بچہ جی منہ سے اقرار کروووو

              تو کیا یہ اقرار جبریت کے زمرے میں نہیں آئے گا؟؟؟

              وللہ العلم الصواب۔



              مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم


              انسانوں کی اصلاح سے خالق حقیقی جل جلالہ سے بڑھ کر اور کون آگاہ ہو سکتا ہے، جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے اور کوئی ذات بھی ایسی نہیں ہے جو انسانی حالات و وقائع سے اس سے زیادہ باخبر ہو۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
              (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ١ؕ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ) (الملك:١٤)
              ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے۔‘‘
              وہ بابرکت ذات جس نے نفس انسانی کو بنایا اور اس کی نیکی و بُرائی اور اس کے ابہام کو جانتی ہے کہ انسان کس طرح مائل بہ نیکی ہوسکتا ہے اور کیسے تقویٰ کے راستوں پر گامزن ہوسکتا ہے، اگرچہ اس دور میں نام نہاد تجدد اور آزادی کے دعویدار انسان کی فلاح کے لاکھ دعوے کریں۔ فرمان عالی شان ہے:
              ’’وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ١۫ وَ يُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا‘‘(النساء:٢٧)
              ’’اور اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کردور نکل جاؤ۔‘‘
              مذہبِ اسلام میں حیاتِ دنیوی کے حوالے سے منفرداور بے مثال ہدایات موجود ہیں۔ سعادت و کامرانی کایہ واحد مذہب ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی جمیع مشکلات و مصائب کا حل موجود ہے۔ذیل میں ہم انسانی زندگی کے دو اہم مسائل ’’مجبوری اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق اور اس کے وقوع یا عدمِ وقوع‘‘ کے بارے فقہاے اسلام کی آرا پیش کررہے ہیں جس سے اسلام کے انسانیت کی فلاح وسعادت کے دعوے کی بھرپور تصدیق وتائید ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں فقہا کے اَقوال و اَدلہ پیش کرنے کے بعد راجح موقف کو آخرمیں درج کیا جائے گا۔
              ’طلاق‘ کی لغوی تعریف
              یہ مصدر ہے:طلقت المرأة وطلقت تطلق طلاقا فهي طالق سے یعنی چھوڑنا، ترک کرنا اور الگ کر دینا ۔کہا جاتا ہے:طلق البلاد یعنی اس نے شہر چھوڑ دیا، اور أطلق الأسیر یعنی قیدی کو رہا کردیا۔اسی طرح یہ چند دیگر معانی پربھی دلالت کرتا ہے:
              • اس کا اطلاق پاک، صاف اور حلال پر بھی ہوتا ہے۔کہاجاتا ہے :هو لك طلق یعنی وہ تیرے لیے حلال ہے۔
              • اسی طرح بُعد اور دوری پر بھی بولا جاتا ہے، کہا جاتا ہے:طلق فلان ’’فلاں شخص دور ہوا۔‘‘
              • اسے خروج اور نکلنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے جیساکہ أنت طلق من هذا الأمر(اللسان:٤؍٢٦٩٦، مجمل اللغہ:٣؍٣٣٠) ’’یعنی تو اس معاملے سے خارج ہے۔‘‘

              مذکورہ معانی پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو مقصود لفظ ’طلاق‘ اور ان میں ہم یک گونہ ربط پاتے ہیں۔جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کو چھوڑ رہا ہوتا ہے اور کسی دوسرے کے لیے اسے حلال کررہا ہوتا ہے۔ اس سے دوری اختیار کر رہا ہوتا ہے تو اس عقد سے بھی نکل رہا ہوتا ہے جو ان دونوں کو جمع کیے ہوئے تھا،چنانچہ لفظ طلاق میں یہ تمام معانی جمع ہو جاتے ہیں۔ (حافظ ابن حجر فی فتح الباری :٩؍٢٥٨)


              طلاق کی شرعی تعریف
              طلاق کی شرعی تعریف کے سلسلہ میں فقہائے کرام کی طرف سے متعدد عبارات دیکھنے میں آئی ہیں ۔ ان میں سے جامع و مانع تعریف اس طرح ہوگی:
              حل قید النکاح (وبعضه) في الحال أوالمآل بلفظ مخصوص (الدر المختار:٤١٤٢)
              ’’حال یا مستقبل میں کسی مخصوص لفظ کے ساتھ نکاح کی گرہ کھولنا۔‘‘
              یہ تعریف الدر المختار کی ہے جس پر اہل علم کااتفاق موجود ہے۔میں نے اس میں (وبعضه) کا اضافہ اس لیے کیاہے کہ اس میں طلاقِ رجعی بھی داخل ہو جائے ۔(الروض المربع لابن قاسم:٤٨٢٦)
              طلاق کی مشروعیت پر دلائل
              ١۔طلاق کی مشروعیت پر کتاب وسنت اور اجماع سے بھی واضح دلائل موجود ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے :
              ’’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ‘‘(البقرۃ:٢٢٩)
              ’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔‘‘
              ٢۔ایک جگہ ارشاد ہے:
              ’’يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ‘‘(الطلاق:١)
              ’’اے نبیﷺ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت میں طلاق دیا کرو۔‘‘
              ٣۔اِرشاد نبویﷺ ہے:
              «إنما الطلاق لمن أخذ بالساق» (سنن ابن ماجہ:٢٠٨١)
              ’’طلاق کا اختیار اسی کو ہے جو پنڈلی تھامتا ہے۔‘‘
              اسی طرح آپﷺ نے حضرت حفصؓہ کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کیا۔(سنن نسائی:٣٥٦٠،سنن ابوداؤد:٢٢٨٣)
              طلاق کی مشروعیت پر بیسیوں احادیث و آثار موجود ہیں۔(نیل الاوطار:٦؍٢٤٧، جمع الفوائد:١؍٦٧١)
              ٤۔جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو صدرِ اوّل سے لے کر موجودہ زمانہ تک طلاق کے جواز پراجماع چلاآرہا ہے اور کسی ایک نے بھی اس کاانکارنہیں کیا۔(المغنی لابن قدامہ:١٠ ؍٣٢٣)
              مجبوری (اِكراه) کی طلاق
              الإکراه لغوی طور پر یہ أکَرِهَ یَکرَه سے مصدر ہے۔ یعنی کسی کوایسے کام کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اصلاً یہ کلمہ رضا اور پسند کی مخالفت پر دلالت کر تا ہے ۔ امام فرا کہتے ہیں:
              یقال أقامني على کره ــ بالفتح ــ إذا أکرهك علیه إلىٰ أن قال: فیصیر الکره بالفتح فعل المضطر (اللسان:٥؍٣٨٦٥)
              ’’کہا جاتا ہے مجھے مجبور کیا گیا۔ یعنی جب یہ فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد مجبور شخص کا فعل ہو گا۔‘‘
              اکراہ کی اصطلاحی تعریف :
              ’’انسان کاایساکام کرنا یاکوئی ایسا کام چھوڑنا جس کے لیے وہ راضی نہ ہو۔ اگر اسے مجبور کیے بغیر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘
              کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اکراہ سے مراد آدمی کا کوئی ایسا کام کرنا ہے جو وہ کسی دوسرے کے لیے انجام دیتا ہے۔(معجم لغة الفقهاء:ص٨٥)
              مختلف اعتبار سے اِکراہ کی متعدد اقسام ہیں۔اِکراہ اقوال میں بھی ہو سکتا ہے اور افعال میں بھی۔جہاں تک افعال کا تعلق ہے تو اس کی بھی دو اقسام ہیں: مجبور اور غیر مجبور۔
              اَقوال میں اکراہ
              علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہ کر اپنے آپپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔

              اس سلسلے میں احناف نے فسخ اور عدم فسخ کے مابین تفریق کوملحوظ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اکراہ خرید وفروخت اور اُجرت دینے میں ہو پھر تو وہ فسخ ہو جائے گا ، لیکن طلاق، عتاق (آزادی) اور نکاح میں فسخ کا احتمال باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا جو شخص بیع و تجارت کے لیے مجبور کیے جانے کے بعد بیع کرلے تو اس کو اختیار ہے، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے یا پھر فسخ کردے،لیکن طلاق، آزادی اور نکاح میں میں اختیار باقی نہیں رہے گا۔(العنایة والکفایة:٨؍١٦٦)


              تاہم اس ضمن میں اگر ادلہ شرعیہ کا جائزہ لیا جائے تو عدم تفریق کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ فرمانِ عالی شان ہے:
              ’’اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ‘‘(النحل:١٠٦)
              ’’مگر یہ کہ وہ مجبور کیاگیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘
              امام شافعی اس کے متعلق فرماتے ہیں:
              إن اﷲ سبحانه وتعالىٰ لما وضع الکفر عمن تلفظ به حال الکراه أسقط عنه أحکام الکفر، کذٰلك سقط عن المکره ما دون الکفر لإن الأعظم إذا سقط سقط ما هو دونه من باب أولىٰ (الام:٣،٢٧٠)
              ’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حالتِ اکراہ میں کلمۂ کفر کہنے میں رخصت عنایت کی ہے اور اس سےکفریہ احکام ساقط کیے ہیں، بالکل اسی طرح کفر کے علاوہ دیگر چیزیں بھی مجبور سے ساقط ہوجائیں گی، کیونکہ جب بڑا گناہ ساقط ہوگیا تو چھوٹے گناہ تو بالاولیٰ ساقط ہوجائیں گے۔‘‘
              سیدنا عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
              «إن اﷲ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرهوا علیه» (سنن ابن ماجہ:٢٠٤٥)
              ’’اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے خطا و نسیان اورمجبوری سے کیے جانے والے کام معاف کر دئیے ہیں۔‘‘
              ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں:’’ مکرہ کی کسی کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآنِ کریم بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیاجائے، وہ کافر نہیں ہو گا اور اسی طرح جو اسلام کے لیے مجبور کیاجائے، اسے مسلمان بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ سنت میں بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص سے تجاوز کیا ہے اور اس کو مؤاخذے سے بری قرار دیا ہے……اس کے بعد امام ابن قیم اقوال اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
              ’’اَقوال میں اکراہ اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق یہ ہے کہ افعال کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد اس کے مفاسد کا خاتمہ ناممکن ہے۔ جبکہ اقوال کے مفاسد کو سوئے ہوئے اور مجنون پر قیاس کرتے ہوئے دور کیا جا سکتا ہے۔‘‘(زاد المعاد:٥؍٢٠٥،٢٠٦)
              یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اکراہ (جبر) کی ایک تقسیم درست اور غیر درست کے اعتبار سے بھی کی گئی ہے۔غیر درست اکراہ تو وہ ہے کہ جس میں ظلم و زیادتی سے کوئی بات منوائی گئی ہو۔ جبکہ درست اِکراہ یہ ہے کہ جس میں حاکم کسی شخص کو اپنا مال بیچنے پر مجبور کرے تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔(جامع العلوم والحکم: ص٣٧٧)
              یا وہ ایلاء کرنے والے کو طلاق دینے پر مجبور کرے جب کہ وہ رجوع کرنے سے انکا رکرے۔
              اکراہ کی شرائط
              اہل علم نے اکراہ کی درج ذیل شرائط کا تذکرہ کیا ہے:
              ١۔اکراہ اس شخص کی طرف سے ہو گا جو صاحب قدرت ہو جیسے حکمران۔
              ٢۔مجبور کو ظن غال ہو کہ اکر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ وعید اور اپنی دھمکی کو نافذ کر دے گا اور مجبور اس سے بچنے یا بھاگنے سے عاجز ہو۔
              ٣۔اکراہ ایسی چیز سے ہو جس سے مجبور کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔(شرح الکبیر:٢؍٣٦٧)
              ان شروط پر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے چند دیگر شرائط کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اکراہ کی تحدید حاکم اور مفتی کے ساتھ خاص کی جائے گی اور انہی کے ثابت کردہ اکراہ کا اعتبار کیا جائے گا۔کیونکہ یہ لوگوں کے احوال کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔(الکفایة:٨؍١٦٨)
              اکراہ کی صورت میں وقوع ِ طلاق
              اس تحریر میں مجبوری کی طلاق کو موضوعِ بحث بنانے کا مقصد اس قضیے کا حل ہے کہ ایسی طلاق وقوع پذیرہوتی ہے یا نہیں؟
              امام مالک، شافعی،احمد اور داؤد ظاہری ﷭ کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہی قول عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عباس اور دیگر کثیر جماعت کا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین نے اس طلاق کے وقوع کا موقف اختیار کیاہے اور یہی موقف شعبی، نخعی اور ثوری ﷭ کا بھی ہے۔(الکفایة والعنایة:٣؍٣٤٤)
              سبب ِاختلاف یہ ہے کہ مجبور کیا جانے والا مختار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولنے والے کا ارادہ تو طلاق دینے کا نہیں ہوتا اور وہ تو اپنے تئیں دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اختیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ مجبور کرنے والے کی وعید سے بچنے کے لیے طلاق دینے کو اختیار کر لیتا ہے ۔
              اَحناف اور ان کے مؤیدین کے دلائل
              ١۔نصب الرایة میں ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی نے چھری پکڑ کر اس کے گلے پر رکھی اور دھمکی دی کہ تو مجھے طلاق دے، ورنہ میں تیرا کام تمام کردوں گی۔ اس شخص نے اسے اللہ کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی۔لہٰذا اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور تمام ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
              «لاقیلولة في الطلاق» (نصب الرایة:٣؍٢٢٢) ’’طلاق میں کوئی فسخ نہیں ہے۔‘‘
              ٢۔ابوہریرہ سے روایت ہے:
              «ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة» (سنن ترمذی: ١١٨٤)
              ’’تین چیزوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘
              اَحناف اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ مذاق کرنے والے کا مقصد تو وقوعِ طلاق نہیں ہوتا بلکہ اس نے فقط لفظ کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی طلاق کا واقع ہونا واضح کرتا ہے کہ مجرد لفظ کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح مجبور کو بھی مذاق کرنے والے پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ دونوں کا مقصود لفظ ہوتا ہے ،معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
              ٣۔حضرت عمر سے مروی ہے:
              أربع مبهمات مقفولات لیس فیهن رد: النکاح والطلاق، والعتاق والصدقة (ايضاً)
              ’’چار مبہم چیزیں بند کی ہوئی ان میں واپسی نہیں ہو سکتی:نکاح،طلاق، آزادی اور صدقہ‘‘
              ٤۔ایک حدیث حضرت حذیفہؓ اور ان کے والدِ گرامی سے متعلق ہے جب ان دونوں سے مشرکین نے نہ لڑنے کا حلف لیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
              «نفى لهم بعهدهم ونستعین اﷲ علیهم» (صحیح مسلم:١٧٨٧)
              ’’ ہم ان سے معاہدہ پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔‘‘
              اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قسم حالت اکراہ اور غیر اکراہ میں برابرہے۔لہٰذا مجرد لفظ کے ساتھ کسی حکم کی نفی کے لیے اکراہ کو معتبر نہیں مانا جائے گا۔ جیسا کہ طلاق۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
              ٥۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں طلاق ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس پر غیر مجبور کی طلاق کے احکام مرتب ہوں گے۔(الهدایة: ٣؍٣٤٤)
              دلائل کا جائزہ
              ١۔سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘(المحلیٰ:١٠؍٣٠٤) لہٰذا اس سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
              ٢۔اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔(تہذیب السنن لابن القیم:٦؍١٨٨)
              کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔لہذا جو شخص اپنے اختیار سے سبب کو اختیار کرے اس پر تو مسبب لازم ہو جائے گا،جیسے مذاق کرنے والا ہے ،لیکن مجبور نہ تو لفظ کا ا رادہ کرتا ہے نہ اس کے سبب کا تو اسے مذاق کرنے والے پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟
              ٣۔ذکر کردہ حضرت عمرؓ کا قول ہمیں نہیں ملا۔ اگر ہم اس کی صحت کا اعتبار کر بھی لیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر دوبارہ لوٹناممکن نہیں رہے گا جبکہ مکرہ کی طلاق تو واقع ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو مجبوری کی بنا پر صرف اور صرف لفظ بول رہا ہے۔تاکہ وہ مجبور کرنے والے سے بچ سکےجب کہ حضرت عمرکے متعلق صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے مکرہ کی طلاق کو لغو قرار دیا۔(زاد المعاد:٥؍٢٠٦ تا ٢٠٩)
              ٤۔اور جو حضرت حذیفہ اور ان کے والد کا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے طلاق کو قسم پر قیاس کیا گیا ہے اور ان دونوں کومجرد لفظ کے ساتھ متعلق کیا گیاہے۔
              تو اس کا جواب بھی یہ ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے، کیونکہ طلاق میں صرف لفظ کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے متکلم کا ارادہ اور اس کے مدلولات کا علم ضروری ہے، کیونکہ شارع نے سوئے ہوئے، بھولنے والے اور پاگل کی طلاق کو واقع نہیں کیا ۔(ایضاً:٥؍٢٠٤،٢٠٥)
              اس سے یقیناً ان دونوں کے مابین فرق نظر آتا ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
              ٥۔اس سے استدلال کہ یہ طلاق مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس کی طلاق کی تنفیذ اسی طرح ہوگی جس طرح غیر مکرہ کی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اس سے ملتے جلتے دیگر دلائل کا جائزہ لے چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکرہ کو غیر مکرہ پر قیاس کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔اس کی تردید دوسرے قول کے دلائل سے بھی ہو جائے گی جو ہم ذکر کرنے والے ہیں۔
              مجبوری کی طلاق کے غیر معتبر ہونےپر جمہورکے دلائل
              ١۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا:
              «لا طلاق ولا عتاق في غلاق» (مسند احمد:٦؍٢٧٦)
              ’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
              اور اِکراہ زبردستی میں شامل ہے، کیونکہ مجبورومکرہ شخص تصرف کا حق کھو بیٹھتاہے۔
              ٢۔حضرت علی ؓسے موقوفاً روایت ہے:
              ’’کل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمكره‘‘(سنن ترمذی : ١١٩١)
              ’’دیوانے اور مكره کے سوا ہرایک کی طلاق جائز ہے۔‘‘
              ٣۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے:
              ’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘(صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق)
              ’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
              ٤۔ثابت بن احنف نے عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کی اُمّ ولد سے نکاح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے مجھے بلایا۔میں اُن کے ہاں آیا تو وہاں دو غلام کوڑے اور زنجیریں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے کہا: تو نے میرے باپ کی اُمّ ولد سے میری رضا کے بغیر نکاح کیاہے۔ میں تجھے موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ پھر کہنے لگا: تو طلاق دیتا ہے یا میں کچھ کروں؟ تومیں نے کہا: ہزار بار طلاق۔ میں اس کے ہاں سے نکل کرعبداللہ بن عمر ؓکے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: یہ طلاق نہیں ہے، اپنی بیوی کے پاس چلا جا۔ پھر میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔(مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق: ١٢٤٥)
              ٥۔چونکہ یہ قول زبردستی منوایا جاتا ہے، اس لیے یہ کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ جیسا کہ مجبوری کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا۔(المغنی:١٠؍٣٥١، زادالمعاد:٥؍٢٠٤)
              بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
              راجح موقف
              بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
              ١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
              ٢۔احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔
              ٣۔یہی موقف اُصولِ شریعہ اور قواعد کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیوں کا رد ہو جاتا ہے ۔ شیخ احمد دہلوی کہتے ہیں:
              ’’اگر مکرہ کی طلاق کو طلاق شمار کیا جائے تو اس سے زبردستی کا دروازہ کھل جائے گا اور بعید نہیں ہے کہ کوئی طاقتور اسی دروازہ سے کمزور کی بیوی کو چھین لے۔ جب بھی اس کے دل کو کوئی خاتون بھلی لگے، وہ تلوار کے زور پر زبردستی طلاق دلوائے گا۔ لیکن جب اس قسم کی اُمیدوں کا سدباب کر دیا جائے گا تو لوگ ان مظالم سے بچے رہیں گے جو اکراہ کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں۔‘‘(حجۃ البالغۃ:2؍138)
              بہت سے محققین اسی موقف کے حامل نظر آتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ(مجموع الفتاویٰ:٣٣؍١١٠)، ابن قیم (زادالمعاد: ٥؍٣٠٤)، امام شوکانی(نیل الوطار:٦؍٢٦٥) اور نواب صدیق بن حسن قنوجی(الروضة الندیة:٢؍٤٢) شامل ہیں۔

              Comment

              Working...
              X