مسجد اقصی کی صدا
آہ!وہ قبلہ اول کہ جس پر
کالی شب کے گھٹا ٹوپ اندھیرے
اس بات کے منتظر ہیں کہ
شاید پھر صبح ہو گی
آہ! وہ مسجد اقصی سوچتی ہے کہ
کبھی تو کوئی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور
کبھی تو کوئی صلاح الدین آئے گا
اور اس کالی خونی شب سے مجھے نجات دلائے گا
اور مسجد اقصی پکارتی ہے کہ اے مسلم!
تیرے بن نہیں آئے گی روشنی
نہیں آئے گی زندگی
اے مسلم!
ذرا ہوش کر تو کہاں پہ کھویا ہے
میں کالی شب کی ظلمت میں
سو سو کر اکتائی ہوں اور تو کیونکر
بے فکر ہو کہ سویا ہے؟
میرے لیے نہیں تو اپنے ہی لیے
کچھ سوچ!تیرا مجھ سے کیا رشتہ ہے؟
اس رشتے کا کچھ پاس کرو
اس رشتے کی کوئی لاج رکھو
شاید کہ پھر ہو جائے صبح
اور چمکے خورشید آزادی
Comment