گھپ اندھیرے میں چھُپے سُونے بنوں کی اور سے
گیت برکھا کے سنو رنگوں میں ڈوبے مور سے
شام ہوتے ہی دلوں کی بے کلی بڑھنے لگی
ڈر رہی ہیں گوریاں چلتی ہوا کے زور سے
رات کے سنسان گنبد میں رچی ہے راس سی
پہرے داروں کی صداؤں کے طلسمی شور سے
لاکھ پلکوں کو جھکاؤ، لاکھ گھونگٹ میں چھپو
سامنا ہو کر رہے گا دل کے موہن چور سے
بھاگ کر جائیں کہاں اس دیس سے اب اے منیرؔ
دل بندھا ہے پریم کی سُندر، سجیلی ڈور سے