چار دن اس حسن مطلق کی رفاقت میں کٹے
اور اس کے بعد سب دن اس کی حسرت میں کٹے
اس جگہ رہنا ہی کیوں* ان شہروں کے درمیاں
وقت سارا جس جگہ بے جا مروت میں کٹے
اک قیام دلربا رستے میں ہم کو چاہیے
چاہے پھر باقی سفر راہ ِ مصیبت میں کٹے
چاند پیڑوں سے پرے ہو رک گئی ہوں بارشیں
کاش وہ لمحہ کبھی اُس بت کی صحبت میں کٹے
اک مثال ِ بے مثال اب تک ہیں اپنے درمیاں
جن کے بازو جسم و دل حق کی شہادت میں لٹے
کاٹنا مشکل بہت تھا ہجر کی شب کی شب کو منیر
جیسے ساری زندگی غم کی حفاظت میں کٹے