اشک آنکھوں میں چُھپاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں
بوجھ پانی کا اُٹھاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں
پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر اُنھیں احساس نہیں
میں نِشانات مِٹاتے ہوئے تھک جاتا ہُوں
برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بُجھاتےہُوئے تھک جاتا ہُوں
اچھی لگتی نہیں اِس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے مِلاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں
غم گُساری بھی عجب کارِ محبّت ہے کہ میں
رونے والوں کو ہنساتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں
اتنی قبریں نہ بناؤ مِرے اندر مُحسن
میں چراغوں کو جلاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں
محسن نقوی
Comment