مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
تر ہیں سب سر کے لہو سے درودیوار ہنوز
دل بھی پُر داغِ چمن ہے پر اسے کیا کیجیے
جی سے جاتی ہی نہں حسرتِ دیدار ہنوز
بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب
بہِ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز
بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ!
تُو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز
کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سرِ خار ہنوز
منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی
جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہ گار ہنوز
اُڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کُوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز
تر ہیں سب سر کے لہو سے درودیوار ہنوز
دل بھی پُر داغِ چمن ہے پر اسے کیا کیجیے
جی سے جاتی ہی نہں حسرتِ دیدار ہنوز
بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب
بہِ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز
بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ!
تُو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز
کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سرِ خار ہنوز
منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی
جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہ گار ہنوز
اُڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کُوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز