درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
رنگ رُو جس کے کبھی منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں
اپنے کوُچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
دو جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں
خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا
اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں
میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ
یک بہ یک بول اُٹھا اس طرف آ میں ہی ہوں
جب کہا میں نے کہ تُو ہی ہے؟ تو پھر کہنے لگا
کیا کرے گا تُو مرا دیکھوں تو جا میں ہی ہوں
میر آوارۂ عالم جو سنا ہے تُو نے
خاک آلودہ وہ اے بادِ صبا میں ہی ہوں
کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے
میر! وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں
Comment