Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں


    Click image for larger version

Name:	545601_10150632279551363_9790901_n.jpg
Views:	1
Size:	75.4 KB
ID:	2488889


    شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
    تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں


    میں اپنے آپ میں نہیں ملا اس کا غم نہیں
    غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں


    ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
    آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں


    تم کو جہان ِ شوق و تمنا میں کیا ملا
    ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں


    اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ
    خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں


    دیتا ہوں تم کو خشکی ِ مژ گاں کی میں دعا
    مطلب یہ ہے کہ دامن ِ پرنم ملے تمہیں


    میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
    جاناں !! جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں


    تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
    شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم ملے تمہیں


    یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
    ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں


    :rose


    :(

  • #2
    Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں

    گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی
    وہ کوئی شخص نہیں تھا، وہ ایک حالت تھی


    وہ بات جس کا گلہ تک نہیں مجھے، پر ہے
    کہ میری چاہ نہیں تھی، مری ضرورت تھی


    وہ بیدلی کی ہوائیں چلیں کہ بھول گئے
    کہ دل کے کون سے موسم کی کیا روایت تھی


    نہ اعتبار نہ وعدہ، بس ایک رشتہ دید
    میں اُس سے روٹھ گیا تھا، عجیب ہمت تھی


    گمان ِ شوق، وہ محمل نظر نہیں آتا
    کنار ِ دشت وہی تو بس اک عمارت تھی


    حساب عشق میں آتا بھی کسی حسین کا نام
    کہ ہر کسی میں کسی اور کی شباہت تھی


    ہے اُس سے جنگ اب ایسی کہ سامنا نہ کریں
    کبھی اُسی سے کمک مانگنے کی عادت تھی



    :rose
    :(

    Comment


    • #3
      Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں



      کہتے ہیں جس کو ذات وہ گویا کہیں نہیں
      دنیا میں دیکھ آئے، یہ در وا کہیں نہیں

      صحرا پہ میں نے آج یہ نکتہ رقم کیا
      دریا کا علم جز تہ ِ دریا کہیں نہیں

      پائے سفر شکستہ ہوئے، مدتیں ہوئیں
      میں راستے میں ہوں ابھی، پہنچا کہیں نہیں

      دے مال ہم کو مفت، ہم اصحاب ِ کہف ہیں
      سکہ ہمارے دور کا چلتا کہیں نہیں


      :rose

      :(

      Comment


      • #4
        Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں




        شوق کا رنگ بجھ گیا، یاد کے زخم بھر گئے
        کیا میری فصل ہو چکی، کیا مرے دن گزر گئے

        رہ گذر خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
        وقت کی گرد باد میں جانے کہاں بکھر گئے

        شام ہے کتنی بے تپاک، شہر ہے کتنا سہم ناک
        ہم نفسو کہاں ہوں تم، جانے یہ سب کدھر گئے

        پاس حیات کا خیال ہم کو بہت برا لگا
        پس بہ ہجوم ِ معرکہ جان کے بے سپر گئے

        میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
        میرے تمام جاں نثار میرے لیے تو مر گئے

        آج کی شام ہے عجیب، کوئی نہیں میرے قریب
        آج سب اپنے گھر رپے، آج سب اپنے گھر گئے

        خواب ِ طلائی ِ خیال، دل کا زیاں تھا اور ملال
        ہوش کے باوجود ہم خواب و خیال پر گئے

        سمت ِ زمردین ِ دل خود سے ہے کیا بہت خجل
        ہم جو گمان ِ زرد میں گھر سے گئے نہ گھر گئے

        تھا جو نفس نفس کارن اُس میں تھی شورش ِ بزن
        زخم بغیر واں سے ہم خون میں تر بہ تر گئے

        شاہد روز ِ واقعہ صورت ِ ماجرا ہے کیا
        کتنے جتھے بکھر گئے، کتنے ہجوم مر گئے

        رونق ِ بزم ِ زندگی! طُرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
        اک تو کبھی نہ آئے تھے، گئے تو روٹھ کر گئے

        آپ بھی جان ایلیا، سوچیے اب دھرا ہے کیا
        آپ بھی اب سدھاریے، آپ کے چارہ گر گئے


        :rose


        :(

        Comment


        • #5
          Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں



          مگر یہ زخم یہ مرہم



          تمہارے نام تمہارے نشاں سے بے سروکار
          تماری یاد کے موسم گزرتے جاتے ہیں
          بس ایک منظر ِ بے ہجر و وصل ہے جس میں
          ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں


          نہ نشاطِ تصور کہ لو تم آ ہی گئے
          نہ زخم ِ دل کی ہے سوزش کوئی جو سہنی ہو
          نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے نہ سحر
          نہ شوق کی ہے کوئی داستاں جو کہنی ہو


          نہیں جو محمل لیلائے آرزو ِ سر راہ
          تو اب فضا میں فضا کے سوا کچھ اور نہیں
          نہیں جو موج ِ صبا میں کوئی شمیم ِ پیام
          تو اب صبا میں صبا کے سوا کچھ اور نہیں


          اتار دے جو کنارے پہ ہم کو کشتی ِ وہم
          تو گر و پیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
          تمارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
          تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں


          نہ کوئی زخم نہ مرہم کہ زندگی اپنی
          گزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
          مگر یہ زخم یہ مرحم بھی کم نہیں شاید
          کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور ایک زمانے میں


          :rose

          :(

          Comment


          • #6
            Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں

            سب سے لاوٹ والی تو بہت زبردست ہے۔۔۔۔
            میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

            Comment


            • #7
              Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں

              2nd last wali.... ki bat kri the
              میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

              Comment


              • #8
                Re: شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں

                zara nawazi hai ap ki...:rose
                :(

                Comment

                Working...
                X