بے یک نگاہ ہے شوق بھی ، اندازہ ہے ، سو ہے
با صد ہزار رنگ ، وہ بے غازہ ہے ، سو ہے
ہوں شامِ حال یک طرفہ کا امیدِ مست
دستک ؟ سو وہ نہیں ہے ، پہ دروازہ ہے ، سو ہے
آواز ہوں جو ہجرِ سماعت میں ہے سکوت
پر اس سکوت پر بھی اک آوازہ ہے ، سو ہے
اک حالتِ جمال پر جاں وارنے کو ہوں
صد حالتی مری ، مری طنازہ ہے ، سو ہے
شوقِ یقیں گزیدہ ہے اب تک یقیں مرا
یہ بھی کسی گمان کا خمیازہ ہے ، سو ہے
تھی یک نگاہِ شوق مری تازگی رُبا
اپنے گماں میں اب بھی کوئی تازہ ہے ،سو ہے
jon elia