یہ غم کیا دل کی عادت ھے ؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ھے ؟ نہیں تو
کسی کے بِن ، کسی کی یاد کے بِن
جیئے جانے کی ھمت ھے ؟ نہیں تو
ھے وہ اک خوابِ بے تعبیر ، اس کو
بھلا دینے کی نیت ھے ؟ نہیں تو
کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟ ھاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ھے ؟ نہیں تو
تیرے اس حال پر ھے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ھے ؟ نہیں تو
ھم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ھے ؟ نہیں تو
ھوا جو کچھ یہ ھی مقسوم تھا کیا
یہ ھی ساری حکایت ھے ؟ نہیں تو
اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
اماں پانے کی حسرت ھے ؟ نہیں تو
تُو رھتا ھے خیال و خواب میں گم
تو اِس کی وجہ فرصت ھے ؟ نہیں تو
سبب جو اِس جدائی کا بنا ھے
وہ مجھ سے خوبصورت ھے ؟ نہیں تو
”جون ایلیاء“