ہم تیرا ہجر منانے کے لئے نکلے ہیں
شہر میں اگ لگانے کے لئے نکلے ہیں
شہر کُوچوں میں کارِ حشر بپا کہ آج ہم
اُس کے وعدوں کو بھُلانے کے لئے نکلے ہیں
ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت ہے معصوم
ہم تو اوروں کو منانے کے لئے نکلے ہیں
شہر میں شور ہے وہ یُوں کے گمان کے سفاری
اپنے ہی اپ آنے کے لئے نکلے ہیں
وہ جو تھے شہرِ تحیر ترے پُر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لئے نکلے ہیں
رہگزر میں تیری قالین بچھانے والے
خون کے فرش بچھانے کے لئے نکلے ہیں
ہمیں کرنا ہے خداوند کی اِمداد سو ہم
دین و کعبہ کو لڑانے کے لئے نکلے ہیں
سرِ شب ایک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اُٹھانے کے لئے نکلے ہیں
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لئے نکلے ہیں
ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے رُوداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نا جانے کے لئے نکلے ہیں
jon elia