اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
کیا تکلف کریںیہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
ہے اُسے دُور کا سفر درپیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
تم بنو رنگ،تم بنو خوش بُو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں۔۔۔۔
jon elia