مقاماتِ اربابِ جاں اور بھی ہیں
مکاں اور بھی ، لامکاں اور بھی ہیں
مکمل نہیں ہے جنونِ تجسس
مسلسل جہاں در جہاں اور بھی ہیں
یہیں تک نہیں عشق کی سیر گاہیں
مہ و انجم و کہکشاں اور بھی ہیں
محبت کی منزل ہی شاید نہیں ہے
کہ جب دیکھیے امتحاں اور بھی ہیں
محبت نہیں صرف مقصودِ انساں
محبت میں کارِ جہاں اور بھی ہیں
فقط توڑ کر مطمئن ہو نہ بلبل!
قفس صورتِ آشیاں اور بھی ہیں
بہت دل کے حالات کہنے کے قابل
ورائے نگاہ و زباں اور بھی ہیں
نہیں منحصر کچھ مے و مے کدہ تک
مری تشنہ سامانیاں اور بھی ہیں
خوشا درسِ غیرت ، زہے عشقِ تنہا
وہاں میں نہیں ہوں، جہاں اور بھی ہیں
صبا! خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
انہیں جب سے ہے اعتمادِ محبت
وہ مجھ سے جگر بد گماں اور بھی ہیں
٭٭٭