میرا جو حال ہو سو ہو، برقِ نظر گرائے جا
میں یونہی نالہ کش رہوں، تُو یونہی مسکرائے جا
دل کے ہر ایک گوشہ میں آگ سی اک لگائے جا
مطربِ آتشِ نوا، ہاں اسی دھن میں گائے جا
لحظہ بہ لحظہ، دم بہ دم، جلوہ بہ جلوہ آئے جا
تشنۂ حسنِ ذات ہوں، تشنہ لبی بڑھائے جا
جتنی بھی آج پی سکوں، عذر نہ کر، پلائے جا
مست نظر کا واسطہ، مستِ نظر بنائے جا
لطف سے ہو کہ قہر سے، ہو گا کبھی تو رُوبرو
اس کا جہاں پتہ چلے، شور وہیں مچائے جا
عشق کو مطمئن نہ رکھ حسن کے اعتماد پر
وہ تجھے آزما چکا، تو اسے آزمائے جا
٭٭٭