کسی نے پھر نہ سنا درد کے فسانے کو
مرے نہ ہونے سے راحت ہوئی زمانے کو
اب اس میں جان مری جائے یا رہے، صیاد!
بہار میں تو نہ چھوڑوں گا آشیانے کو
چلا نہ پھر کوئی مجھ پر فریب ہستی کا
لحد تک آئی اجل بھی مرے منانے کو
فلک! ذرا اس بے بسی کی داد تو دے
قفس میں بیٹھ کے روتا ہوں آشیانے کو
وفا کا نام کوئی بھول کر نہیں لیتا
ترے سلوک نے چونکا دیا زمانے کو
قفس کی یاد میں پھر جی یہ چاہتا ہے جگر
لگا کے آگ نکل جاؤں آشیانے کو
٭٭٭