جب کبھی چھیڑا جنوں نے دیدۂ خوں بار کو
بھر دیا پھولوں سے ہم نے دامن ِکہسار کو
ٹھیس لگ جائے نہ اُن کی حسرتِ دیدار کو
اے ہجومِ غم! سنبھلنے دے ذرا بیمار کو
فکر ہے زاہد کو حور و کوثر و تسنیم کی
اور ہم جنت سمجھتے ہیں ترے دیدار کو
دیکھنے والے نگاہِ مست ساقی کی کبھی
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں ساغرِ سرشار کو
ہر قدم پر، ہر روش پر، ہر ادا پر، ہر جگہ
دیکھنا پڑتا ہے انداز، نگاہِ یار کو
لاکھ سمجھایا جگر کو، ایک بھی مانی نہ بات
دھُن لگی تھی کوچۂ قاتل کی میرے یار کو
٭٭٭