ایک رنگیں نقاب نے مارا
حُسن بن کر حجاب نے مارا
جلوۂ آفتاب کیا کہیئے
سایۂ آفتاب نے مارا
اپنے سینے ہی پر پڑا اکثر
تیر جو اضطراب نے مارا
نگہِ شوق و دعویء دیدار
اس حجاب الحجاب نے مارا
ہم نہ مرتے ترے تغافل سے
پرسش بے حساب نے مارا
لذت دید بے جمال نہ پوچھ
درد بے اضطراب نے مارا
چھپتے ہیں اور چھپا نہیں جاتا
اس ادائے حجاب نے مارا
حشر تک ہم نہ مرنے والوں کو
مرگِ نا کامیاب نے مارا
پاتے ہی اک اشارۂ نازک
دم نہ پھر اضطراب نے مارا
دل کہ تھا جانِ زیست آہ جگر
اسی خانہ خراب نے مارا
٭٭٭