نہ راہ زن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
ادائے عشق کو رسم وفا نے لوٹ لیا
نہ پوچھو شومی تقدیر خانہ بربادی
جمال یار کہاں، نقش پا نے لوٹ لیا
دل تباہ کی روداد اور کیا کہیے
خود اپنے شہر کو فرمانروا نے لوٹ لیا
زباں خموش، نظر بے قرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
نہ اب خودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جگر
ہر ایک لطف کو لطف خدا نے لوٹ لیا
٭٭٭