زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جب مسرت قریب آئی ہے
غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے
حسن نے جب شکست کھائی ہے
عشق کی جان پر بن آئی ہے
عشق کو زعمِ پارسائی ہے
حسنِ کافر! تری دہائی ہے
ہائے وہ سبزۂ چمن کہ جسے
سایۂ گل میں نیند آئی ہے
عشق ہے اس مقام پر کہ جہاں
زندگی نے شکست کھائی ہے
خاکِ منزل کو منہ سے ملتا ہوں
یادگارِ شکستہ پائی ہے
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ*دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
ہجر سے شاد، وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
٭٭٭