دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رسوائی کو شہرت کریں ہم
اک قیامت کہ تلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گزر لے تو بیان ِ قد وقامت کریں ہم
حرف تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عمر کے دن
شام آئی ہے تو کیا ترک ِ محبت کریں ہم
اک ہماری بھی امانت ہے تہ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے اس شہر سے ہجرت کریں ہم
دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دنیا
صبح سے پہلے ہر اک خواب کو رخصت کریں
شوق ِ آرائیش گل کا یہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم
عمر بھی دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم