ایک اداس شام کے نام
عجیب لوگ ہیں
ہم اہل اعتبار کتنے بدنصیب لوگ ہیں
جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
۔۔۔۔خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے
جو نام بھولنے کا تھا اس ایک نام کو
۔۔۔گلی گلی پکارتے رہے
جو کھیل جیتنے کا تھا وہ کھیل ہارتے رہے
عجیب لوگ ہیں
ہم اہل اعتبار کتنے بدنصیب لوگ ہیں
کسی سے بھی تو قرض ِ آبرو ادا نہیں ہوا
لہولہان ساعتوں کا فیصلہ نہیں ہوا
برس گزر گئے ہیں کوئی ،معجزہ نہیں ہوا
وہ جل بجھا کہ آگ جس کے شعلہ نفس میں تھی
وہ تیر کھا گیا کماں جس کی دسترس میں تھی
سپاہ ِ مہر کا فصیل شب کو انتظار ہے
کب آئے گا وہ شخص جس کا سب کو انتظار ہے
ہم اہل انتظار کتنے بدنصیب لوگ ہیں
عجیب لوگ ہیں
ہم ایل اعتبار کتنے بدنصیب لوگ ہیں
Comment